تیرا پاکستان ہے۔یہ میرا پاکستان ہے!!!

0
5
شبیر گُل

گزشتہ روز سپریم کورٹ سے چار ارب پچاس کروڑ کی کرپشن میں گرفتار ملزم کو ایک سو روپے کے اسٹامپ پر ضمانت دے دی گئی۔ پاکستان ایک ایسا زرخیز ملک ہے جہاں سترہ ارب کی کرپشن کا مجرم وزیراعظم ھے۔اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث نواز شریف پچاس روپے کے اسٹامپ پر ملک سے فرار ہوا اور شاہی پروٹوکول میں واپس آیا۔یہ وہ ملک ہے جہاں انچاس کڑوڑ ننانوے لاکھ کی کرپشن حلال ہے۔جہاں ججز از خود اپنی تنخواہیں تین گنا بڑھا لیتے ہیں۔ارکان پنجاب اسمبلی بے یک جنبش چار لاکھ ماہانہ تنخواہ بڑھاتے ہیں۔کوئی پوچھنے والا نہیں ھو۔2018 کی الیکشن ریگنگ ھو یا 2024 کے الیکشن رگگنگ ۔آئین کی پامالی ھو یا عدالتی بے انصافی نہ کوئی احتساب اور نہ ہی آئین کی پامالی کی سزا۔ سیاسی افراتفری ہے ۔ انتقامی سیاست نے ملک میں عدم استحکام پیدا کیاھے۔ سیاسی دشمنی میں اس حد تک نہیں جانا چاہئے کہ بعد میں مافیاں مانگی پڑیں۔ صلح جوئی اور سیاسی بریک تھرو کے لئے ایک دوسرے کو سپیس دینا ضروری ھے۔سیاسی انتقام نہیں ھونا چاہئے۔ملٹری اسٹبلشمنٹ پر بہت دبا ھے۔نو مئی میں گرفتار چالیس افراد کی رہائی اسی دبا کا نتیجہ ھے۔ملٹری اسٹبلشمنٹ عمران خان کو چھوڑنا چاہتی ہے ۔ مگر گارنٹی چاہتی ہے کہ انہیں نہ چھیڑا جائے۔عمران پر عدالتی کیسیز میں آہستہ آہستہ ریلیف ملنا شروع ھوگا۔ حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات ایک ڈھونگ ہے۔جواسٹبلشمنٹ کے دبا پر ھو رہے ہیں۔جب اسٹبلشمنٹ کو ن لیگ اور اتحادیوں میں کوئی جان نظر نہ آئی تو انہوں نے تھک ہار کر پی ٹی آئی سے مذاکرات کو ترجیح دی۔ جی ایچ کیو کے مکین ڈانلڈ ٹرمپ کے مشیر رچرڈ گرینل کے ٹوئٹس کی تاب نہ لا سکے ۔اور مذاکرات پر مجبور ھوئے۔اور آئیندہ بھی امریکہ کو اڈے فراہم کرنے میں کوئی تامل نہیں کرینگے۔ملڑی اسٹبلشمنٹ نہ آج تک امریکہ کو ناں نہیں کہہ سکی ۔ٹرمپ حکومت کے آنے سے پہلے عدالتوں کے ذریعے عمران خان کو رہائی مل سکتی ہے۔ اسلام آباد میں امریکن ایمبیسیڈر کی تبدیلی سے ملٹری اسٹٹبلشمنٹ نئی انتظامیہ سے تعلقات بنانا چاہتی ہے۔ نئے امریکی وزیر خارجہ کا بیان کہ وہ ڈکٹیٹروں کو سپورٹ نہیں کرینگے کیونکہ انہیں وہاں کی عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ملٹری اسٹبلشمنٹ ہمیشہ اپنی ہی عوام کو تختہ مشق بناتی ہے۔ 19971 میں جماعت اسلامی کو مکتی باہنء سے جنگ میں جھونک کر خود سرنڈر کرکیا۔اپنی پتلونیں چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے ۔جماعت اسلامی کے پینتیس ہزار نوجوانوں کو ذبیح کروایا۔ہزاروں ارکان جمات کو تیر تیغ کیا گیا۔ جماعت اسلامی نے تریپن سال پاکستان کے لئے قربانیاں دیں۔ہزاروں کارکنان پھانسیوں پر جھول گئے ۔ لیکن مکتی باہنی اور انڈین ایجنٹوں کو کبھی قبول نہیں کیا۔ پچاس سالہ قربانیوں کے بعد آج اللہ نے انہیں بنگلہ دیش میں کامیاب کیا ہے۔فوج نے عوامی طاقت کے سامنے سرنڈر کیا۔پاکستان کے ساتھ جس نے بھی برا کیا ۔ اللہ رب العزت نے اسے نشان عبرت بنایا۔بنگلہ دیش میں نجیب خاندان نشان عبرت بنا۔ پاکستان میں مودی کے یار شریف خاندان اور بھارت میں مودی اپنے کرتوں کیوجہ سے نشان عبرت ھونگے۔درندوں کی لوٹ مار اور کرپشن کے باوجود پاکستان انشااللہ ہمیشہ قائم رہے گا ۔ آج ملٹری اسٹبلشمنٹ بلوچستان،اور پختونخواہ میں وہی کھیل کھیل رہی ہے۔افغان پٹی پر حالات کشیدہ ہیلن۔ کرم ایجنسی اور پارہ چنار میں ابھی تک کشیدگی موجود ہے لیکن جنرل عاصم اینڈ کمپنی کی نظریں سیاسی معاملات میں مداخلت اور عوام کو فتح کرنے پر مرکوزہے۔ جو کہتے تھے کسی صورت چوروں،ڈاکوں سے مذاکرات نہیں ھونگے۔عاصم اینڈ کمپنی کے بہکاوے میں آگئے۔ پی ٹی آئی قیادت سونامی لپیٹ کر بغیر ایجنڈا مذاکرات پر بیٹھ گئی ۔ ان سب کو انکی مجبوریوں نے مذاکرات کی ٹیبل پر بٹھایا ۔جو کہتے تھے کہ عمران خان، ایک فتنہ ہے ۔نو مئی کا ماسٹر مائنڈ ہے ۔ دہشت گردی کا پشت پناہ ہے۔ریاست کا باغی ہے۔ ریاست کے خلاف بغاوت کی سزا پھانسی ہے۔ دوسری طرف آئی ایس پی آر نو مئی کو فتنہ خوارج سے ملاتی رہی ہے۔ اسٹبلشمنٹ ھو یا سیاسی گماشتے ،ھم ہر مشکل گھڑی میں امریکہ اور سعودیہ کیطرف دیکھتے ہیں۔جو کل ابسولیوٹلی ناٹ کہتے تھے۔آج ٹرمپ سے مدد کی آس و امید لگائے بیٹھے ہیں۔ رچرڈ گرینل کے ٹوئٹس پر اسٹبلشمنٹ کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ بلکہ ن لیگ اور اتحادیوں کو بھی مذاکرات پر آمادہ کیا۔ پی ٹی آئی حالات کے جبر سے تنگ مذاکرات کی آفر کی منتظر تھی ۔ اور اس آفر کو اپنے لئے معجزہ سمجھتے ھوئے آفر کو فورا قبول کیا۔ ملاقاتیں شروع ھوئیں۔ نہ کوئی ایجنڈا طے ھوا نہ میٹنگز کے نوٹس لگھے گئے۔اس لئے مذاکرات بے نتیجہ ثابت ھو نگے۔حکومت چاہتی ہے کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں۔ ڈنگ ٹپا تک ہی رہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر مذاکرات کامیاب ہوئے تو موجودہ رجیم آٹ۔مقتدرہ حلقے عالمی دبا کی وجہ سے مذاکرات کررہے ہیں۔ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوگئے تو شہبازشریف اندر جیل میں اووو کررہے ھونگے اور عمران خان باہر ۔ پی ٹی آئی ایکبار پھر اسٹبلشمنٹ کی جھولی میں ۔گزشتہ روز گنڈاپور اور محسن نقوی کو جھپیاں ڈالتے دیکھا گیا جو اچھی بات ہے لیکن کارکن اس پر ناراض ہیں کہ 26 نومبر کو کارکنان پر گولیاں چلوانے والے سے جپھیاں ۔پی ٹی آئی کا بیانیہ بھی ن لیگ کے بیانئے ووٹ کو عزت دو کیطرح ثابت ہوا۔پی ٹی آئی روز اول سے طاقتور حلقوں سے مذاکرات چاہتی ہے ۔ دوسری طرف انکے سوشل میڈیا بریگیڈ نے آرمی کے خلاف ٹی ٹی پی کی طرز کا محاذ کھول رکھا ہے۔ گالم گلوچ برگیڈ کے پاس نہ کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی پروگرام۔انہیں اسٹبلشمنٹ نے تیار کیا تھا۔یہ مختلف جماعتوں کے دھتکارے ہوئے افراد کا ہجوم ہے۔ جو کل کو عمران خان کو بھی گالیاں دے رہے ھونگے۔یہ مستقبل کی ایم کیو ایم ہے۔ پی ٹی آئی سوشل میڈیا برگیڈ آجکل مریم نواز کی دبئی کے شہزادے کو جچھی کھنک رہی ہے۔ مریم نواز بھی وزیراعلی کم فیشن ماڈل زیادہ لگتی ہیں۔ موجودہ دور میں پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیاں بھی اپنے دائرہ سے باہر نکل کر کھیل رہی ہیں جو ملکی سالمیت کے لئے خطرناک بھی ہے اور قابل تشویش بھی۔ آئی ایس آئی کے چیف کا فون ہیک ہونا اس امر کی نشاندہی ہے کہ ادارے ملکی سیکورٹی اور انٹیلی جنس کو سیاسی معاملات میں اس حد تک اُلجھا چکے ہیں کہ انہیں کسی دوسری طرف دھیان ہی نہیں۔فوج کے خلاف نفرت اس حد تک بڑھ رہی ہے کہ آئے روز فوجی گاڑیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جس میں ہر ہفتے درجنوں شہادتیں ہو رہی ہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے جی ایچ کیو کے نمائندے، امریکہ اور یورپ میں اوورسیز پاکستانی لیڈرشپ سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔تاکہ امریکہ اور یورپ میں کروڑ کمانڈرز کی بدمعاشی کے لئے ہمدردی حاصل کی جاسکے۔ اس سلسلہ میں اوورسیز پاکستانیوں کی ایک بڑی آرگنائزیشن اے پی پیک جو امریکہ میں پاکستانی کاکس کا کام کرتی ہے جن کی اکثریت انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف ہے ۔ اسے حکمران طبقہ حکومت مخالف اور عمران کا حمایتی سمجھتا ہے۔ ان میں بزنس کمیونٹی ، پروفیشنلز اور ڈاکٹروں کی اکثریت ہے۔جرنیلی مافیا اور حکومتی ایجنساں اے پی پیک کے خلاف کھل کر سامنے آگئی ہیں۔اس میں توڑ پھوڑ کے لئے کئی رہنماں کو جی ایچ کیو بریفنگ کے لئے مدعو کیا گیا ہے۔
نواز شریف کی حیثیت ایک بارہویں کھلاڑی کی ہے۔ شہباز شریف سے سر سے اسٹبلشمنٹ نے شفقت کا ہاتھ کھسک گیا ہے جو اب انکے کاندھوں پر رکھ دیا گیا ہے اگر موجودہ رجیم کو تلٹ پٹ کیا گیا تو ن لیگ کے پاس آئیندہ الیکشن میں عوام کے پاس بیچنے کو کچھ نہیں بچا۔ پیپلز پارٹی موقع کی نزاکت کے مدنظر دامن بچانا چاہ رہی ہے تاکہ آئندہ الیکشن میں اس کا چہرہ مسخ ہونے سے بچ سکے۔ تحریک انصاف کی لیڈر شپ احتجاجی سیاست سے اکتا گئی ہے۔ 26 نومبر کے دھرنا اور احتجاج میں گرفتار کارکنان کو قیادت کیطرف سے بے یارومددگار چھوڑنے پر کارکن میں کم ہمتی پیدا ھوچکی ھے۔ اس لئے ماحول کو گرمانے کے لئے تحریک انصاف ریلیف چاہتی ھے۔ کارکنان کی رہائی چاہتی ھے۔ گنڈاپور ، بشری بی بی اور عمر ایوب کے کارکنان کو چھوڑ کر بھاگنے پر کارکنان ناراض ہیں۔ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ ، ن لیگ اور اتحادی تذبذب کا شکار ہیں ۔اچانک مذاکرات کے دھونگ کو زبردستی رچایا گیا ھے۔ مذاکرات میں ان قائدین کو اسٹبلشمنٹ نے زبردستی بٹھایا ھے۔ اس لئے اس کی کامیابی کے امکانات بہت کم ھیں۔ ڈیڈ لاک پیدا ھوسکتا ھے۔ اگر مذاکرات کامیاب ھوئے تو تحریک انصاف کو اسٹبلشمنٹ کیطرف سے ریلیف مل سکتی ھے۔ جسے ن لیگ یا اتحادی جماعتیں قبول کرنے کو تیار نہیں۔ یہ مذاکرات ٹرمپ کے خلف اٹھانے سے پہلے فیس سیونگ کے طور پر کئے جارہے ہیں۔ان میں سنجیدگی۔ متانت،یا بردباری کا مظاہرہ کوئی فریق نہیں کررہا۔سیاست میں اخلاق باختگی نے بد مزگی کی ھے۔ڈیجیٹل دور میں مقابل کے لئے ماحولیاتی شعور،معاشی استحکام،پائیدارجمہوریت اور صاف ستھری قیادت کی ضرورت ھے۔ نظام تعلیم اور تعلیمی نظام کو جدید بنانے کی ضرورت ھے۔محب وطن ،نظریاتی اور دیانتدار قیادت کی ضرورت ھے۔پاکستانی قوم،اور نئی Generation قمحنتی ہے ۔ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہے۔ایک مضبوط،خودمختار،اور جدید ریاست دیکھنا چاہتی ھے۔ملک پر ملٹری اسٹبلشمنٹ اور اس کے بغل بچوں کی حکومت ھے۔جس کا ہر راستہ جی ایچ کیو سے ہو کر گزرتا ھے ۔ ملک کے ہر ادارے پر ریٹارڈ فوجی قابض ہیں ۔بائیس ہزار بیوروکریٹس دوہری شہریت کے حامل ہیں۔دس ہزار فوجی آفیسرز،اور پندرہ فیصد پالیٹیشنز دوہری شہریت رکھتے ہیں۔جو ملکی وسائل پر قابض ہیں۔بیروزگاری اور جبر نے نوجوان نسل کو باغی بنا دیا ھے۔ملٹری اشرافیہ کی سیاسی مداخلت نے اپنے خلاف نفرت ابھار کر خونی انقلاب کی بنیاد رکھ رہی ھے۔اگر انکا وطیرہ ظلم، جبر اور فسطائیت رہا تو آنے والے کل فوجی چھانیاں عوامی غضب کا شکار ھونگی۔ دشمن ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانا چاہتا ھے۔ بھارت اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔جرنیل دشمنوں کے آلہ کار نہ بنیں۔ پاکستان جدید مزائیل ٹیکنالوجی، کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتا ھے۔خطے میں اسے برتری حاصل ھے۔جس پر دشمنوں کی نظریں ہیں۔ جی ایچ کیو کو ان نظروں کا تعاقب کرنا چاہئے نہ کے لوگوں کے بیڈ رومز کا۔
قارئین! معیشت اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہمارے نوجوان کسی سے کم نہیں۔ صرف چور حکمرانوں اور ظالم جرنیلوں سے چھٹکارا چاہئے۔ آج کا نوجوان ملک کو نئی بلندی پر لے جانے کی صلاحیت رکھتا ھے۔سیاسی جماعتوں نے نوجوان نسل کو مایوس کیا ھے۔ سیاسی پارٹیوں میں وہی پرانا اور روایتی گند ھے۔ جس نے جرنیلوں کی خواہشات کو تقویت دی ھے۔ جرنیلوں نے مختلف ادوار میں سیاسی بدمعاشوں کو استعمال کیا۔ جس سے ملک کمزور ھوا۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستانی پاسپورٹ کی بے توقیرھوا۔ قوم چوروں اور جرنیلوں سے تنگ ھے ۔اس لئے انہیں عمران خان کی شکل میں نجات دہندہ نظرآتا ھے۔ خالانکہ پی ٹی آئی میں وہی پٹواری، وہی جیالے اور وہی ایم کیو ایم کا خام مال ھے ۔یہ لوگ تبدیلی کیا لائیں گے۔ھم پورا ملک ٹھیک کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن اپنا آپ بدلنا نہیں چاہتے۔کرپشن بھی کرتے ہیں ۔دوسروں کو کرپشن فری معاشرہ کا بھاشن بھی دیتے ہیں۔ایسے کب تک چلے گا؟
عمران خان خوش قسمت ہیں کہ انکے ساتھ عوام کھڑی ہے خصوصا نوجوان طبقہ ۔لیکن انہوں نے نوجوانوں کی اخلاقی تربیت نہیں کی۔ پی ٹی آیی میں حوصلہ اور برداشت کی کمی ہے۔ یہ تنقید برداشت نہیں کرتے۔یہی کام ایم کیو ایم کیا کرتی تھی۔آج اس کا حشر آپ کے سامنے ھے۔اعتدال اور بردباری سے ہی متعفن سسٹم کو شکست دی جاسکتی ھے ۔ فرسودہ سیاسی ذہنیت اور غنڈے جرنیلوں نے ملک کا ستیاناس کیاھے۔جب تک ملک سے پٹواریوں ،جیالوں اور یوتھیوں کی فرسودہ ذہنیت کا خاتمہ نہیں ہوگا، جدید سوچ رکھنے والا پاکستان نہیں بن سکتا۔ جب تک ملٹری اسٹبلشمنٹ سیاسی مداخلت بند نہیں کرے گی ملک میں استحکام نہیں آسکتا۔ اس کی زندہ مثال بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں فوجی مداخلت ھے۔ جہاں نوجوان نسل کو ہتھیار اٹھانے ہر مجبور کیا گیا۔ نوجوان نسل ملٹری اسٹبلشمنٹ کو دوسرے اداروں میں نہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور نہ ہی سیاسی معاملات میں مداخلت۔ جھوٹے، مکار اور منافق ستر سال سے ملک کو نوچ رہے ہیں۔اصل غدار یہی ہیں جنہوں نے اسلامی تشخص کو تباہ کیا۔ ڈیموکریٹک سسٹم کو برباد کیا۔دہشت گردوں کو پالا۔کراچی سے گوادر تک ۔کشمیر سے لیکر خیبر پختونخواہ ، میں نوجوانوں کو ریاست کے خلاف ابھارا۔ خاکی وردی کی بے توقیری کی۔ ہم خاکی وردی پر مر مٹنے والے لوگ تھے۔ عوام کی اکثریت اب ان پر لعنتیں بھجتی ہے۔ جرنیلوں نے جمہوریت کی بنیادیں ہلادی ہیں۔ یہ نہ تیرا پاکستان ھے نہ میرا پاکستان ھے۔ یہ بھگوڑے جرنیلوں کا پاکستان ھے جو اس پاکستان میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ یہ ملک لوٹ کر محب وطن کہلاتے ہیں ۔انکے خلاف آواز اٹھانے والے دہشتگرد اور ملک دشمن۔قوم کو ان سے چھٹکارا چاہئے۔پرانی روایات اور نظام کو ختم کر کے ایک جدیدمضبوط پاکستان کی ضرورت ھے۔اسکے لئے معاشی استحکام لازمی ھے۔ سیاست میں دیانتدار اور ایماندار قیادت کا ہونا ضروری ھے۔جو جماعت اسلامی کی شکل میں موجود ھے۔ انشااللہ،قوم کا مقدر چمکے گا۔ اور مستقبل ایک دن ضرور روشن ھوگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here