گزشتہ ہفتے کی افسوسناک ترین خبر ایرانی بلوچستان کے شہر سیستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کی ہلاکت کی ہے جنہیں ہلاک کرنے کا دعویٰ بلوچستان نیشنل آرمی نے کرلیا اور اعتراف کرتے ہوئے غیر بلوچوں کو اسی طرح ختم کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں نہ ہی بلوچ قوم پرستوں کی پہلی واردات ہے۔ بی ایل اے سے پہلے عصبیت کی یہ وارداتیں خصوصاً پنجابی اور دیگر صوبوں کے معصوم اور محنت کش لوگوں کے قتال اور اغوا کی تکفیرانا بربریت بلوچستان نیشنل فرنٹ بی ایل اے بی وائی ٹی بھی کرتی رہی ہیں۔ یہ سب دو چار برس کی بات نہیں ہے کئی عشروں کا سلسلہ ہے جو کسی بھی طرح رُکنے میں نہیں آرہا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ ماہ جعفر ایکسپریس کے واقعے کے بعد بھی آئے دن غیر بلوچ خصوصاً پنجابی افراد کو شناخت کرکے مارے جانے کے واقعات جاری رہے ہیں،اتوار کے روز کراچی سے کوئٹہ آنے والی بولان ایکسپریس کو تحفظات کے تحت جیکب آباد پر روک دیا گیا۔ شکر ہے کہ کوئی مزید بڑا حادثہ ہونے سے بچ گیا لیکن سیستان میں بغض تحریب اور تعصب کے حادثے میں8غریب پنجابیوں کی ہلاکت کس کے کھاتے میں ڈالی جائے۔ ہم گزشتہ ایک کالم میں بلوچ تحریکوں اور غیر بلوچ افراد سے نفرت اور ان کے قتال کے بارے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور اقتدار کی بھوکی سیاسی اشرافیہ کے حوالے سے تفصیل سے اظہار کر چکے ہیں کہ یہ سلسلہ حال کا نہیں عشروں سے حقوق سے محرومی اور ناانصافیوں کا خمیازہ ہے جس کے نتیجے میں تعصب اور نفرت کا زہر معاشرے میں بری طرح پھیل چکا ہے، فرد سے لیکر سیاست اور اداروں تک اسکا اثر برُی طرح سرایت کر چکا ہے بلکہ مفادات کے لئے دوغلے پن اور سازش کا مظہر ہے۔ وطن عزیز کے موجودہ سیاسی، معاشی، معاشرتی ابلاغ واداراتی حالات اور معاملات پر اگر نظر ڈالیں تو مفاداتی سازشوں کا ایسا جال بچھا ہوا ہے جس کی بنیاد ہی تعصب، نفرت اختلاف اور دھوکے سے عبارت ہے۔ ریاست حکومت، عدالت، میڈیا وسوشل میڈیا سمیت کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں اپنا سر اونچا رکھنے کے لئے مبالغہ آرائی، جھوٹ اور سازشی محرکات کا استعمال نہ کیا جارہا ہو۔ زمین و آسمان کے وہ قلابے ملائے جاتے ہیں جن کا تصور بھی ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس حقیقت سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں سیاہ وسفید اور اقتدار واختیار کا ماخذ ہر دور میں مقتدرہ ہی رہی ہے۔ایک سابق ایئر مارشل اور سینیئر تجزیہ کار کے مطابق ہر سیاسی جماعت اور رہنما اقتدار کے لئے اسٹیبلشمنٹ کا محتاج ہے اور اس حوالے سے ہر وہ اقدام کرنے پر آمادہ جو طاقتوروں کی منشاء کے مطابق ہو۔ ہمارا تجزیہ اور مشاہدہ ہے کہ معاملہ یہیں تک نہیں ہے، ملک وعوام کی مرضی وخواہش کے برعکس اقتدار کا ہُما اس کے سر پر رکھا جاتا ہے جسکے لئے بیرونی طاقتوں کی سفارش، ہمدردی اور رضا مندی بھی شامل ہو تاہم بعض اوقات اُن مہربانوں کے اشتراک سے وہ سازشی کھیل بھی کھیلا جاتا ہے جس میں عوامی حمایت اور ملک کی بہتری کے برعکس فیصلے اور اقدامات کئے جائیں۔ یہ حقیقت بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ جو قائد نہ جھکے اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے یا عضو معطل بنا دیا جاتا ہے خواہ اس کے لئے منافرانہ تقسیم کرنی پڑے یا متعصبانہ ماحول پیدا کرنا پڑے۔
عمران اور مقتدرہ کے سربراہ کی سربراہی قیادت کے درمیان نزاعی کیفیت اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، عوام کا مقبول ترین رہنما جسکی محبوبیت اور مقبولیت پاکستان ہی نہیں دنیا میں تمام پاکستانیوں دیگر اقوام کے عوام رہنمائوں اور منتخب نمائندگان میں حقیقت ہے اور جس کے حوالے سے امریکہ، برطانیہ و دیگر ایوانوں میں عمران کی رہائی کے لئے قرار دادیں پاس کی گئیں، اس رہنما کی اسیری کو600سے زیادہ دن گزر چکے ہیں، جس پر مقدمات کی بھرمار کرکے عدلیہ کو بھی مقتدرہ کے رحم وکرم کا محتاج کردیا گیا ہے اب اس حوالے سے عمران کے لئے عصیبت اور تقسیم کا نیا جال بنا گیا ہے اور پی ٹی آئی میں تقسیم وتفریق کا زہر گھولا جارہا ہے۔ سلمان اکرم راجہ اور بیرسٹر گوہر کے درمیان تفریق وجھگڑے، پختونخواہ میں دھڑے بندی، موجودہ اور سابق لیڈر شپ میں تقسیم اور موجودہ قیادت پر مقتدرین وحکومت کی مہر بانیوں و فیوض کی آسائشوں کی تفصیل تو قارئین بخوبی جانتے ہیں۔ دوسری طرف شکاگو سمیت امریکہ میں اپنی چوہدراہٹ کے چکر میں گروپنگ اور اپنی مارکیٹنگ کے لئے لاکھوں ڈالرز اور روپے کمانے والے سوشل میڈیا کے تاجروں نے عمران کے محبت کرنے والے کو بیچنے کے کاروبار سے کپتان کی رہائی اور اس کے مشن کو دھندلانے کا کام ہی کیا ہے، حد تو یہ ہے کہ اب ریاستوں وحکومتوں کے درمیان بین الملکتی سازشیں بھی سامنے آرہی ہیں۔ ہمارے مصدقہ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان آنے والے امریکی نمائندگان ایوان کے وفد کو جس کی قیادت رکن کانگریس جیک برگمین کر رہے تھے جنہوں نے عمران کی رہائی کاٹویٹ کیاتھا، امریکی سفیر نے علیمہ خان سے ملاقات اور عمران کے ایشو پر گفتگو سے گریز کرنے کا مشورہ اس جواز پر دیا کہ یہ ملاقات بین الاقوامی مضمرات اثرات وتعلقات کا سبب بن سکتی ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ امریکی سفیر یا سفارت خانے کا مئوقف محض اپنی سوچ کا سبب نہیں تھا، خصوصاً ایسی صورت میں کہ متذکرہ وفد پاکستان آرمی کی قیادت سے مل چکا تھا۔ یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ علیمہ خان سے ملاقات اور عمران خان کے ایشو پر بات نہ کرنے کی رضا مندی دوطرفہ انتظامیہ کے اتفاق سے ہوئی ہوگی اور اس کے پیش نظر دوطرفہ ریاستی کچھ لو، کچھ دو معاملات پر اتفاق ہوا ہوگا۔ امریکہ میں حکومت کوئی بھی ہو پالیسیاں اور سمت کا تعین پینٹاگون کا ہی ہوتا ہے اور اس اقدام سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ عمران کی رہائی کے حوالے سے پاکستان کی مقتدرہ وپینٹاگون ایک ہی پیج پر آچکے ہیں۔
ہماری عرض صرف اتنی ہے کہ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کی کنجی تقسیم، عصیبت، خفیہ معاہدات یا بین الملکتی مفاداتی سازشوں میں ہرگز نہیں ہے بلکہ وحدت ،عوامی جذبات واحساس کے تقدم، معاشرتی یکجہتی ومعاشی ترقی میں ہی ہے اور اسکے لئے جمہوری اقدامات، آئین وقانون کی پاسداری اور حق رائے دہی کو تسلیم کرنا لازمی ہے۔ اگر حالات یونہی رہے تو اندرونی وبیرونی خطرات عدم تحفظ، لسانی وعصبی نفرت کے سبب خدانخواستہ وطن عزیز کی سلامتی اسٹیک پر ہی رہے گی۔کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ وطن عزیز کے محافظ اپنی برتری کے لئے وطن کی سلامتی اور وطن کے بیٹوں کی قربانیوں پر آمادہ ہیں۔ واضح رہے کہ وطن کے بیٹے صرف وطن کی حفاظت کرنے والے ہی نہیں وہ غریب اور محنتی بھی ہیں جو اپنی روزی روٹی کے لئے محنت کر رہے ہیں اور دہشت گردوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کسی شاعر نے صحیح کہا ہے۔
رہے حالات گریونہی ہمارے
نہ ہوگی اپنی کوئی داستاں بھی
٭٭٭٭٭٭