سیاستِ دوراں پر تبصرہ!!!

0
48
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

کینیڈا میں مقیم ممتاز شاعرہ اور مصورہ محترمہ پروین شئر نے اپنی تازہ شعری تصنیف نہالِ دل پر سحاب جیسے مجھے نیویارک کے ایڈریس پر ارسال کی۔ یہ دل کی بات ہے۔ اِس کتاب میں محترمہ کی پچاس اردو نظمیں جو ماں کے موضوع پر ہیں شائع ہوئی ہیں۔ ہر نظم کی پینٹنگ بھی اور اس نظم کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی شاملِ کتاب ہے۔ گویا یہ کتاب دو آتشہ ہے۔ شاعری اور مصوری۔ آپ نے یہ کتاب برائے تبصرہ مجھے بھیجی اور فون بھی کیا۔ علاوہ ازیں ان کی شاعری کی ایک اور کتاب اس سے قبل میں کرچیاں کے عنوان سے چھپ چکی ہے،محترمہ کو اردو اور انگریزی پر کامل دسترس حاصل ہے۔ اس کتاب پر احمد فراز اور امجد اسلام امجد کی مفصل آرا موجود ہیں۔ محترمہ کی کتاب کرچیاں میں فیض احمد فیض، احمد فراز اور ساحر لدھیانوی کا رنگ و آہنگ نمایاں ہے۔ اس کتاب کی شاعری رومانوی اور انقلابی ہے۔ یہ کتاب محروم و مظلوم و مقہور و مجبور طبقات کے جذبات و حالات کی آئینہ دار ہے۔ نہالِ دل پر سحاب جیسے میں والدہ کی جدائی پر نہایت دلدوز نظمیں ہیں۔ وہ والدہ کی وفات کے بعد بھی ہر وقت عالمِ تصور میں ان کو اپنے ساتھ پاتی ہیں۔ یہ عجیب وجدانی و روحانی کیفیت ہے۔ میں نے محترمہ کی فرمائش پر انگریزی زبان میں اِس کتاب پر بھر پور کالم لکھا تھا جو بعد میں میرے انگریزی مضامین اور کالموں کی کتاب Moderate Meditations میں شائع ہوا۔ میں محترمہ کی شاعری اور شخصیت پر ایک جامع کتاب پروین شئر : عہدِ ناتمام کی شاعرہ کے عنوان سے عتیق اللہ صاحب نے ترتیب دی اور اس میں محترمہ پر لکھے گئے اردو اور انگریزی مضامین شامل کیے ۔ جن میں میرا مضمون بھی شامل ہے۔مجھے محترمہ کے بارے میں یہ چند سطور لکھنے کا خیال ان کے ایک شعر کی بدولت آیا جو پاکستان کی سیاست پر پورا اترتا ہے۔ انہوں نے یہ شعر کئی برس پہلے کہا تھا مگر یہ شعر پاکستان کے لیے حقیقتِ ابدی نظر آتا ہے۔ کہتی ہیں!
اب تو یہی سیاستِ دوراں کا حال ہے
جس سمت کی ہوا ہو، ادھر جانا چاہیے
اِس شعر کو پڑھ کر مجھے اپنے مرحوم دوست ممتاز شاعر محسن بھوپالی کا شعر یاد آ گیا ہے۔ کہتے ہیں!
نیرنگء سیاستِ دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
ایسی ہی صورتِ حال کے پیشِ نظر فیض احمد فیض نے بھی کہا تھا
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
پروین شئر نے ہوا کا رخ دیکھ کر طنزیہ طور پر رخ بدلنے کا ذکر کیا ہے۔ لیکن الطاف حسین حالی کے اِس شعر کو کس کھاتے میں ڈالیں۔ وہ فرما گئے!
سدا ایک ہی رخ نہیں نا چلتی
چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی
شاید اسی شعر کو پاکستانی افسروں اور سیاست دانوں نے حرزِ جاں بنا لیا ہے۔ مجھے ہوا کے ساتھ رخ بدلنے والوں کے بارے میں اپنے پہلے شعری مجموعہ متاعِ درد کی ایک غزل کا مطلع یاد آ گیا ہے!
یہ اِس خدا کے ساتھ ہیں، وہ اس خدا کے ساتھ
مطلب پرست پھیرتے ہیں رخ ہوا کے ساتھ
علامہ اقبال اور قائدِاعظم کے پاکستان میں ملائیت، فرقہ بازی، جاگیر داری ، سرمایہ داری ، موروثیت،آمریت،اور خانقاہیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ پھر کن کا پاکستان ہے؟ اگر کسی کو اِس کے بارے میں کوئی اطلاع ہو تو برائے کرم مجھے بھی مطلع فرمائے ۔ عین نوازش ہو گی۔
پس چہ باید کرد آئے اقوامِ شرق؟ پاکستانی سیاست ایک تجارت، منافقت اور خباثت بن چکی ہے۔اب یہ سیاست نہیں رہی بلکہ انتقامی رخ اختیار کر چکی ہے۔ جو آج تخت نشیں ہیں کل وہ تخت زنداں پر تھے۔ جو آج تخت زنداں پر ہیں کل ہو پھر تخت نشیں ہوں گے۔ یہ فسادِ و عنادِ سیاست ہے کہ کوئی باشعور اور باضمیر انسان سیاست میں آنے سے گریزاں ہے۔ خواجہ حیدر علی آتش نے بجا کہا تھا
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

پاکستان میں زمینِ سیاست جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی ملکیت ہے جبکہ غریبوں، کسانوں ، صحافیوں ، باضمیروں اور با شعور لوگوں کی زمینِ سیاست دو گز زمینِ قبر ہے۔ اب تو وہ بھی کسی کسی کو میسر ہے۔ لا شوں کا نشان بھی نہیں ملتا
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی دفن کے لئے
یا پھر یوں مرزا غالب کی زبان میں نوحہ کناں ہو جائیں
ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
پاکستانی سیاست کی اصلاح کی صرف ایک صورت ہے ۔ پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لایا جائے۔ پارلیمانی نظام میں وزیرِ اعظم بے بس ہوتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہارس ٹریڈنگ ( Horse Trading) ہوتی تھی۔ اسمبلی ارکان کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ کچھ دانشور اسے ڈنکی ٹریڈنگ( Donkey Trading) کہتے تھے۔ کیونکہ گھوڑے کے کچھ اصول ہوتے ہیں جبکہ گدھے کا کوئی اصول نہیں ہوتا۔ گدھا اپنے پیچھے کھڑے ہر شخص کو دو لتیاں مارتا ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا
گریز از طرزِ جمہوری ، غلامے پختہ کارے شو
کہ از مغزِ دو صد خر فکرے انسانے نمی آید
( طرزِ جمہوری سے گریز کر اور ایک پختہ کار انسان کی پیروی کر کیونکہ اگر دو سو گدھے مِل کر بھی ایک انسان جیسی فکر پیدا نہیں کر سکتے۔ امریکہ ، فرانس، روس، چین، ایران، ترکی، جرمنی، اور کئی ممالک میں صدارتی نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ سول سوسائٹی اور وکلا سپریم کورٹ میں صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام کے لیے رِٹ ( Writ) داخل کریں۔ریفرنڈم کے لیے تحریکِ نفاذِ صدارتی نظام چلائیں اور ملک بچائیں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here