سب سے بڑا فتنہ !!!

0
65
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

آج یہاں نیویارک میں سمندر کنارے ایک ہوٹل میں عقیقہ کی تقریب تھی ہم لوگ باہر ہی بیٹھ گئے گرمیوں میں پانی سے ٹکرا کر جب ہوا لگتی ہے تو عجیب قسم کا سرور پیدا ہوجانا یقینی امر ہے۔ ایک نوجوان ہمارے درمیان آکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا بزرگوں عجیب بدمزہ سا دور ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ مجھے ٹھرک ہے سوشل میڈیا کا اب میرے لئے نکلنا مشکل ہو رہا ہے ایک صاحب ہیں یونس الگوھر ایک صاحب شکیل بن حنیف ایک سائیٹ ہے بنت مریم ایک سائٹ ہے القرآن ایک صاحب ہیں مرزا انجینئر، غامدی تو مشہور کردار ہے مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں۔ بزرگوں نے باالاتفاق کیا اب واقعی فتنوں کا دور ہے۔ روئے زمین کا کوئی گوشہ بھی ان فتنوں سے محفوظ نہیں ہے خاص طور پر ملت اسلامیہ پر سازشی فتنوں گمراہ فرقوں اور باطل تحریکوں کی چوطرفہ یلغار ہے بدعقیدگی اور بدعملی کا شکار تو ہم پہلے سے ہی تھے اب حیا باختگی تشدد پسندی کا بھی شکار ہوگئے ہیں۔ ان سب سے بڑا فتنہ مادیت پسندی نفس پرستی خدا بیزاری۔ اور دہریت کا فتنہ ہے جس کا شکار صرف مسلمان ہی نہیں دیگر مذاہب بھی شکار ہیں پچھلے دنوں ایک انٹرفتھ میٹنگ میں تقریباً سارے ہی مذاہب کے پیشوا بیٹھے تھے ایک یہودی ربائی نے کہا میں نے جب سیناگاگ قائم کیا تھا تو میرے پاس ساڑھے تین سو ممبر تھے جو اپنی آمدنی کا ایک مخصوص حصہ سیناگاگ میں جمع کراتے تھے۔ اب پتہ چلا ہے کہ جو لوگ سیناگاگ چھوڑ کر جارہے ہیں وہ کہتے ہیں مذہب میں رکھا ہی کیا ہے۔ خدا سے ہی بیزار ہوگئے ہیں اب میرے پاس صرف پچاس ممبر ہیں جس سے سیناگاگ چلانا مشکل ہو رہا ہے ہمارے ہاں بھی فرقہ پرستی عروج پر ہے کوئی فرقہ دوسرے کی مدد نہیں کرتا ہم فروعات میں بٹے ہوئے ہیں لوگ خدا سے ہی بیزار ہو رہے ہیں عیسائی راہب نے کہا میں جیوش ربائی سے اتفاق کرتا ہوں۔ جب میں نے چرچ شروع کیا تھا۔ ساڑھے سات ہزار ممبر تھے چرچ کی بے بہا آمدنی سے لہراں بہراں تھی۔ اب بمشکل سات سو بھی کم رہ گئے ہیں۔ میرے لئے چرچ چلانا مشکل ہو رہا ہے میں نے سیل پر لگا دیا ہے۔ ہندو پنڈت کہنے لگا جب تک انڈیا میں تھا وہاں ہندو توا کا سرکل اتنا مضبوط ہے کہ انسان کا اس حصار سے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔ یہاں معاملہ اور ہے ہر بندہ آزادی سے سوچ سکتا ہے جس کی وجہ سے لوگ بھگوان کے ہی انکاری ہو رہے ہیں میں اب سوچ رہا ہوں۔ ہندوستان واپس چلا جائوں یہاں کے بچے لاجک مانگتے ہیں میں کہاں سے دوں، سکھ بھائیا بھی پریشان نکلا کہنے لگا ایک زمانہ تھا کہ ہماری پہچان پگڑی داڑھی اور کڑا کرہان تھی۔ اب حال یہ ہے نہ داڑھی نہ بگڑی نہ کرہان اب صرف ایک کڑا رہ گیا ہے جس سے پہچان ہوتی ہے کہ یہ سکھ ہے مگر ہمارے لئے ایک اور مصیبت بھی ہے مسلمان بچوں نے بھی کڑا پہننا شروع کردیا ہے تو میرے پیارے بچو اب اگلا زمانہ سب سے بڑے فتنے مادہ بمقابلہ خدا ہے تیار ہوجائو۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here