ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جان بوجھ کر ایک سوچی سمجھی سازش کے ذریعے پاکستان میں سوشل میڈیا میں جھوٹی خبروں کی بھرمار ہےFAKE NEWSاور افواہ سازی کے ذریعے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اگلے سال بھی انتخابات نہیں ہونگے اور ایک کرپٹ حکومت کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ حکومت کرنے کی خواہشمند ہے ساتھ میں یہ تاثر بھی دیا جارہا ہے کہ طاقتور حلقوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگا کر اپنی مرضی اور منشا کے مطابق مستقبل کے فیصلے کئے جائیں گے۔ نوازشریف کو پیغام دے دیا ہے کہ وہ وزیراعظم نہیں بن پائیں گے بلکہ انہیں یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے پائیں گے۔ کچھ ایسا ہی پیغام پبلشنز پارٹی کو بھی دیا گیا۔ سندھ کے ایک سابق اقلیتی وزیر سے ایک بہت بڑی رقم کی برآمدگی کی خبر کو مشتہر کرکے اس کے تانے بانے آصف زرداری سے ملانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان خبروں میں کس قدر سچائی ہے اس کی تصدیق نہیں ہوسکتی ہے۔ ساتھ میں اب شازیہ مری چیئرپرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے متعلق بھی اسی قسم کی خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔ جبکہ اسی قسم کی خبریں اگر طاقتور اداروں کے سبکدوش ہونے والے اعلیٰ افسران کے متعلق اگر کہیں شائع ہوئیں ہوں تو اس پر شدید ردعمل آتا ہے۔ اس دوغلی پالیسی سے ایک بات تو کھل کے عیاں ہوتی ہے کہ خبرساز اداروں کو پیغام یہ دیا جارہا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور انکے سربراہان کے خلاف جو لکھنا ہے لکھو لیکن حساس ادارے نوگوNO GOعلاقہ ہے تحریک انصاف کے ناکام تجربہ کے بعد محسوس ہے ہو رہا ہے کہ اب طاقتور حلقہ کسی بھی سیاسی جماعت پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں اسی لئے انہیں افواہ سازی کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ اور ملکی معاملات کو مکمل طور پر اپنے ہاتھوں میں رکھنے کا فیصلہ ہونے جارہا ہے کیا یہ غیر اعلانیہ ایمرجنسی ہے یا ایک اور مارشل لاء کی تیاری؟ یہی سوال سو کروڑ کا ہے جس کا جواب آنے والے وقت کے پاس ہے یا فیصلہ کرنے والوں کے پاس:
اس طرح کے فیصلے تحریک انصاف اور اسکے گرفتار سربراہ کے لئے فائدہ مند ہونگے بین الاقوامی سطح پر چلائی گئی مہم کو تقویت ملے گی یہ کوتاہی نظر کی اور سیاسی طور پر غیر دانشمندانہ فیصلہ ہوگا۔ انتخابات میں غیر ضروری تاخیر سے معاملات اور الجھیں گے کسی عوامی حمایت کے بغیر بننے والی حکومت تاش کے پتوں سے بنی ہوئی عمارت ہوگی جو ذرا سا بھی عوامی احتجاج کا جھٹکا برداشت نہ کرسکے گی۔ بیک وقت تمام محاذ پر لڑنے سے وقت بکھر لگی پھر کسی محاذ پر بھی فتح حاصل کرنے کے امکانات معدوم ہوئے جائیں گے فی حال ایک فتنہ کو ہی مات دیکر وقفہ کریں۔ بدعنوانی کی عفریت کا مقابلہ کرنے کیلئے زیروٹالرنس کی پالیسی کا اعلان کریں۔ نیب کو ختم کرکے اچھی شہرت کے حامل سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ریٹائرڈ ججز پر مشتمل ایک عدالتی کمیشن بنائی جائے جسکے احکامات پر عملدرآمد کیلئے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جائے جس میں پولیس اور افواج پاکستان کے ریٹائر افسران جن کا بہترین ریکارڈ رہا ہو انہیں مقرر کرکے انکا مدت ملازمت ایک سال رکھا جائے تاکہ زیادہ عرصہ رہنے والے افسران مقدمات کو طوالت میں ڈال کر اپنے مفادات کے حصول میں ملوث نہ ہوں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک گول میز کانفرنس کے ذریعے بدعنوانی کی لعنت ختم کرنے کیلئے ایک اینٹی کرپشن چارٹر پر آمادہ کیا جائے جسے نئی منتخب اسمبلی میں قانون کی شکل دی جائے اس قانون کا دائرہ اختیار اعلیٰ عدالتوں اور افواج پاکستان پر بھی ہونا چاہئے کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہوگا کیونکہ قانون کا دھرا معیار ایسے قانون کے نفاذ میں سب سے بڑی رکارٹ ہو۔ جب تک ایسا قانون نہیں بنے گا اور اس پرمن وعن عملدرآمد نہیں ہوگا۔ملکی معاملات کو سیدھے راستے پر نہیں لے آیا جاسکتا۔ اب عوام کا صبر بھی لبریز ہوگیا ہے۔ بدقسمتی سے حکمرانوں کی مسلسل بدعنوانیوں نے پاکستان کو عوامی غیض وغضب کا آتش فشاں بنا دیا ہے جو کسی وقت بھی ایک بڑے دھماکہ سے پھٹ پڑیگا۔ اسی لئے ارباب اقتدار وطاقتور اداروں کیلئے مندرجہ ذیل گزارشات پیش خدمت ہیں، (الف) جیسے ہی نئی انتخابی حلقہ بندیاں مکمل ہوں فوری بنیادوں پر شفاف انتخابات کروائے جائیں۔
(ب) چارٹر آف اینٹی کرپشن کی تیاری کو فوری انتخابات سے مشروط کیا جائے۔
(پ) اگر کسی بھی سیاسی جماعت یا اس کے سربراہ پر بدعنوانی کے الزامات ہوں تو ایک اعلیٰ عدالتی کمشن کے ذریعے اس کی تحقیقات کرائی جائے۔ اس عدالتی کمیشن میں تمام صوبوں کو برابر نمائندگی دی جائے تاکہ چھوٹے صوبوں میں یہ تاثر نہیں پیدا ہو کہ انکی سیاسی قیادت کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
(ت) انتخاباتی نتائج پر اعتراضات پر مشتمل عرصداشت پر بھی90دن سے120دن(تین سے چار ماہ کی مدت میں فیصلے کو ہر صورت میں نمپٹایا جائے جوکہ ماضی میں اسمبلی کی مدت ختم ہونے تک چلتے رہتے تھے۔
(ث) عام مقدمات کی طوالت کو ایک برس میں ختم کرنے کیلئے بھی تمام ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیٹی بنا کر طریقہ کار کو سبھل اور کم وقتی بنا کر کم ازکم مدت میں فیصلہ ممکن بنائے جائیں۔
٭٭٭٭