2012 کے بعد ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی ایک سوچ پیدا ہوئی، جنوبی ایشیائی ممالک نے اپنے اپنے مقاصد طے کیے یہ اور ان کے حصول کے لیے صبح شام ایک کر دیا۔۔۔۔۔ اس وقت اس دوڑ میں پاکستان بھی شامل تھا، 2014 میں حکومت نے اسی سوچ کو اپناتے ہوئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری کو بھی اپنی خارجہ پالیسی میں نمایاں جگہ دی۔۔۔ مگر شاید پاکستان کی بہتر صورتحال کچھ لوگوں کو قابل قبول ہے ہی نہیں۔۔۔۔۔۔
آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے تمام ہمسایہ ممالک معاشی طور پر پاکستان کو بے حد پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔۔۔ جس کا ایک ثبوت اج کل سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک ویڈیو ہے جس میں ایک افغان باشندہ دکھا رہا ہے کہ کس طرح ایک ہزار افغانی کرنسی کو پاکستانی روپوں میں تبدیل کروانے کے بعد اس کے ہاتھ میں کتنے کرنسی نوٹ موجود ہیں۔۔۔۔
دوسری ایک خبر اج سننے کو ملی کہ افغانستان کی وزارت خارجہ نے اپنے شہریوں کو پاکستان کی سکیورٹی صورتحال کے مدنظر پاکستان کا سفر کرنے سے منع کیا ہے۔۔۔۔۔
خدا جانے پاکستان کے ہمسایہ ممالک بھارت اور چین پاکستان کی سیکیورٹی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کیا فیصلہ کرتے ہیں۔۔۔۔
پاکستان میں آج اگر کسی چیز کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے تو وہ یہ سچ ہے کہ 2014 میں سیاسی رہنماں کو بے توقیر کرنے کی جو تحریک چلائی گئی،، اس کو سرعام اپنی غلطی تسلیم کیا جائے۔۔۔۔
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پھیلانے کے لیے جس طرح آج کے انقلابیوں کو اس وقت اپنی کٹھ پتلیاں بنا کر استعمال کیا گیا،،، اس روش کو ختم کرکے قوم سے معافی مانگی جائے۔۔۔۔
2014 سے شروع ہونے والے ترقی کے سفر کا حال ہمارے سامنے ہے۔۔۔
آج پاکستان کے تمام ہمسایہ ممالک بے بسی کی تصویر بن نظر نہیں آتے۔۔۔
2014 سے لے کر 2018 تک ہم نے پاکستان کے ساتھ وہ کیا جو شاید کوئی دشمن ملک بھی نہ کرتا۔۔۔
آج ہمیں روٹی کے لالے اور لوڈ شیڈنگ کو قومی گفتگو کا درجہ مل چکا ہے۔۔۔
ایک جماعت نے طالب علموں کو لیپ ٹاپ دیے کہ وہ اس کے ذریعے آئی ٹی کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو منوائیں،،، مگر چند سیاسی جرنیلوں نے ایک تحریک کے ذریعے ملک میں ایسی تحریک چلائی کہ انہیں لیپ ٹاپ کے ذریعے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا اور تذلیل کا ایسا سلسلہ شروع کروایا کہ آج ہم آئی ٹی میں تو اگے نہیں بڑھ سکے لیکن پروپیگنڈہ میں شاید کوئی اور ملک ہمارا مقابلہ نہ کر سکے۔۔۔۔۔۔
آج ہم کسی طاقت کے بل بوتے پر ناقابل تسخیر نہیں بلکہ اپنی معاشی صورتحال اور بدحالی کے سبب اس لیے ناقابل تسخیر ہو چکے ہیں کہ ہم مادی طور پر نہیں فکری طور پر تباہ حال قوم بن چکے ہیں۔۔
٭٭٭