زندگی نامۂ حضرت زید شہید!!!

0
311
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

آپ ، آدم آل محمد ۖ، نوح اہل بیت علیہ اسلام زین العابدین ، سید الساجدین حضرت امام علی ابن علیہ السلام کے پرہیز گار اور متقی فرزند ارجمند تھے۔ حضرت زید بن علی علیہ اسلام کی ولادت باسعادت امام زین العابدین علیہ السلام کے بیت الشرف واقع مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی تاریخ ولادت پرمختلف مورخین کے درمیان اختلاف رائے موجود ہے ۔ مشہور محقق ابن عساکر نے آپکی کی تاریخ ولادت 78 ہجری جبکہ ایک اور مورخ کی نظر میں تاریخ ولادت 75 ہجری ہے ۔بعض مورخین کے مطابق ان کی تاریخ ولادت 80 ہجری بنتی ہے۔حضرت زید بن علی ع کے القابات میںشہید حلیف القرآ ،زید الازیاد، عالم آل محمد و فقیہ اہلبیت مشہور ہیں۔ جناب زید کی والدہ کا نام حوریہ تھا جن کا تعلق سندھ کے ایک متمول شاہی گھرانے سے تھا- جو جناب امیر مختار ثقفی کے توسط سے امام زین العابدین (ع) کی خدمت میں پہنچی تھیں ۔ حضرت زید بن علی علیہ اسلام نہایت ہی خوبصوت اور پروقار شخصیت کے مالک تھے۔ آنکھیں بڑی اور سیاہ جبکہ ابرو کشیدہ جس سے آپ کی شخصیت دوسروں سے نمایاں نظر آتی تھی۔ بچپن ہی سے بہت ذہین اور لائق تھے آپ روحانی ارتقا و معنوی جلال کے ساتھ ساتھ وجاہت ہاشمی شجاعت علوی کے بھی آمین تھے۔ علی ع کا گھر بھی وہ گھر ہے کہ اس گھر کا ہر اک بچہ شیرِ خد دکھائی دیتا ہے۔زیدابن علی علیہ اسلام نے سیدہ ریطہ دختر حضرت عبداللہ ابن حضرت محمد حنیفہ بن امام علی علیہ اسلام سے عقد فرمایا ۔ اس طرح آپکا سلسلہ تین واسطوں سے حضرت علی علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ حضرت عبد اللہ علیہ اسلام کا شمار اپنے دور کے نامور بزرگوں میں سے ہوتا تھا۔ سمعی حاکم سلمان بن عبدالملک مروان کے حکم سے آپ کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔ حضرت ریطہ کا شمار خاندا بنی ہاشم کی معزز اورمحترم خواتین میں ہوتا تھا۔ ان کی شہادت کوفہ کے ظالم اور جابر حاکم یوسف بن عمر کے ناپاک ہاتھوں سے ہوئی۔ اس ظالم حاکم نے حکم دیا تھا کہ حضرت زید کی زوجہ محترمہ پر کوڑے برسائے جائیں۔ تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ اس قدر کوڑے لگائے گئے کہ آپ کا جسم مبارک زخموں سے لہولہان ہو گیا۔ اس طرح اس شدید زخمی حالت میں ان کو کوفہ شہر سے باہر پھینک آنے کا حکم دیا گیا ۔ یوں خاندان بنی ہاشم کی یہ بہادر اور نڈر خاتون اپنے اجداد اور شوہر نامدارحضرت زید بن علی شہید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین حق کی بقا کے لئے شہادت کے درجہ پر فائز ہوئیں۔یزید کے بعد ہشام بن عبد الملک حاکم ہوا ۔ اس کا دور حکومت 105 ہجری سے 125 ہجری تک، 20 سال قائم رہا اور جس قدرمظالم کا امکان تھا آل محمد ع پر ڈھائے گئے ،حضرت زید ع نے ہشام ابن عبد المک کے مظالم کے خلاف صدائی احتجاج بلند کی ۔اس زمانہ سلطنت میں ملک میں سیاسی خلفشار بہت زیادہ ہوچکا تھا،(جاری ہے)
مظالم بنی امیہ کے انتقام کا جذبہ تیز ہورہا تھا اور سادات میں سے متعدد افراد حکومت کے مقابلے کے لیے تیار ہوگئے تھے ،ان میں نمایاں شخصیت حضرت زید ع کی تھی- بنی امیہ کے مظالم سے تنگ آکر آپ نے میدانِ جہاد میں قدم رکھا ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے لیے یہ موقع نہایت نازک تھا مظالم بنی امیہ سے نفرت میں ظاہر ہے کہ حضرت زید ع کے ساتھ متفق تھے پھر جناب زید ع آپ کے رشتہ کے چچا بھی تھے مگر آپ کی دوررس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ یہ اقدام کسی مفید نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتالہٰذا آپ نے مناسب طریقہ پر انھیں مصلحت اندیشی کی دعوت دی نہ جہاد سے روکا نہ ہی حکم دیا مگر اہل عراق کی ایک بڑی جماعت کے اقرار اطاعت و وفاداری کے وعدوں نے جناب زید علیہ اسلام کے اندر کامیابی کی توقعات پیدا کردیں اور آخر 120ھجری میں شام کی ظالم فوج سے تین روزتک بہادری کے ساتھ جنگ کرنے کے بعد شہید ہوئے۔
دشمن کا جذبہِ انتقام قتل پر ہی ختم نہیں ہوا بلکہ دفن ہونے کے بعد آپ کی لاش کو قبر سے نکالا گیا اور سر کو جدا کرکے ہشام کے پاس بطور ہدیہ بھیجا گیا اور لاش کو دارالامارہ کوفہ پر سولی دے دی گئی جو کئی برس تک اسی طرح لٹکی رہی، تاریخ میں رقم ہے کہ جب دوران جنگ زید بن علی کہ پیشانی پر تیر لگا۔ لوگ ان کو ایک گھر میں اٹھا کر لے گئے۔ کوفہ سیایک جراح کو بلایا گیا تاکہ وہ آپکی پیشانی سے تیر نکالے۔
جب اس نے پیشانی سے تیر نکالا تو حضرت زید ع کی روح جسم سے پرواز کرگئی اسی وقت آپکا جنازہ اٹھایا گیا اور اسے پانی کی نہر میں دفن کردیا گیا اور انکی قبر مٹی اور گھاس سے بھر دی گئی اور اس پر پانی جاری کر کے چھپا دیا گیا اوراس جراح سے عہد و پیمان لیا گیا کہ وہ یہ راز ظاہرنہیں کرے گا ۔ مگر جب صبح ہوئی تو وہ جراح ، یوسف بن عمرثقفی ملعون کے پاس گیا اور حضرت زید ع کے دفن کی جگہ کا نشان بتا دیا ۔ یوسف نے حضرت زید کی قبر کھدوا کر انکی میت باہر نکالی اور سر جدا کر کے ہشام ملعون کے پاس بھیج دیا اور ہشام ملعون نے یوسف بن عمر کو خط لکھا کہ حضرت زید کا لاشہ بے لباس کرکے اسے سولی پر لٹکا دیا جائے یوسف بن عمرملعون نے کناسہ کوفہ میں آپ کو بے لباس ، سولی پر لٹکایا اورایک مدت کے بعد ہشام ملعون نے یوسف بن عمر ملعون کو لکھا کہ حضرت زید ع کی لاش کو آگ میں جلایا جائے اور انکی راکھ فضا میں بکھیر دی جائے،دشمنوں نے جب آپ کے بدنپاک کو سولی پر چڑھایا تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے کہ آپ کا بدن قبلہ رخ مڑ جاتا تھا جتنی بار وہ تبدیل کرتے اتنی بار وہ قبلہ کی طرف ہو جاتا۔
کتاب امالی شیخ مفید میں نقل ہے کہ بلدی نامی ایک شخص بلنجر سے کوفہ پہنچا اور حضرت زید شھید کے بدن کو سولی پر دیکھ کر ہرزہ سرائی کرنے لگا لیکن زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ دونوں آنکھوں سے نابینا ہو گیا۔ کتاب الحدائق الورد یہ میں رقم ہے کہ دو لوگ کوفہ پہنچے اورحضرت زید شھید کے بدن کو سولی پر دیکھ کر رک گئے ان میں سے ایک آدمی سولی پر ہاتھ رکھ کر کر ہرزہ سرائی کرنے لگا جوں ہی ہاتھ اٹھایا تو ہاتھ کے شدید درد میں مبتلا ہو گیا اور کہا جاتا ہے کہ وہ ایک خاص مرض میں مبتلا ہو کر مر گیا۔
کتاب الحدائق الورد یہ میں ہی نقل ہے کہ طایفہ اسدی میں سے عزرمہ نامی ایک شخص حضرت زید شھید کے بدن کو دار پر دیکھ کر ہرزہ سرائی کی اور جسارت کرتے ہوئے آپ کے جسد مبارک پر پتھر پھینکا، اسماعیل بن یسمع عامری کے مطابق موت کے وقت عزرمہ کی آنکھیں دو بلوری شیشوں کی طرح وحشتناک طریقے سے باہر نکلی ہوئیں تھیں۔ حضرت زید شہید کے بے لباس بدن کو سولی پر چڑھایا گیا تو لوگوں کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ آپ کا ستر مکڑی کے جالے سے محفوظ رہا جب بھی جالا اتارا جاتا مکڑی پھر جالا بنا لیتی۔
کتاب الحدائق الورد یہ میں ہی نقل ہے کہ ایک خاتون نے حضرت زید شھید کے برہنہ بدن کو سولی پر دیکھ کر اپنا حجاب آپ کی طرف اچھال دیا، خدا کے حکم سے آپ کے بدن نے یہ نقاب، لباس کی صورت پہن لیا.حضرت زید شھید کا بدن جس سولی پر لٹک رہا تھا، اس کے نگہبان کے مطابق ایک رات خواب میں اس نے دیکھا کہ رسول خدا ص کا اس مقام سے گزر ہوا اور رسول خدا (ص)نے حضرت زید شھید کے بدن کو سولی پر دیکھ کر حیرت سیفرمایا کہ میرے بعد میری اولاد سے کیا یہ سلوک کیا جا رہا ہے؟ اسی کتاب میں رقم ہے کہ جب حضرت زید شھید ع کے جسد خاکی کو جلا کر فرات کے پانی میں بہایا گیا تو دیکھا گیا کہ آپ کے بدن کی راکھ سے ایک نور کا ہالہ چمک رہا ہے۔
شیخ مفید نے اپنی کتاب مسارالشیعتہ میں ان کا سال شھادت تین صفر 121ھجری لکھا ہے۔ مشہور کتاب مسند امام زید جو کہ حضرت زید بن علی ع کی شرح احوال ہے، اس میں آپ کا سال ولادت با سعادت 76 ھجری جبکہ سال شھادت 122ھجری د رج ہے۔ اس طرح آپ کی عمر 46 سال بنتی ہے،روایات میں ہے کہ ہشام بن عبدالملک کے حکم پر آپ کا سر مبارک تن سے جدا کیا گیا- جب آپ کے سرمبارک کو آپ کے ساتھیوں کے سروں کے ہمراہ پہلے شام اور شام سے مدینہ لایا جا رہا تھا تو مدینہ کے راستے میں حجاز اور شام کو متصل کرنے والی قدیم سلطنتی شاہراہ پر واقع موتہ کے شمال میں 22 کلو میٹر کے فاصلے پر قدیم شہر رومی میں واقع قصبہ میں جناب زید شہید کا سر مبارک دفن کیا گیا- اس مقام کا نام” ربہ” تھا- مزار پر نصب ایک پتھر کی تختی پر کندہ تھا کہ یہ مشہد مبارک زید بن علی علیہ السلام بن حسین علیہ السلام بن علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ہے جسے بندہ حقیر سلمان قانونی نے تعمیر کیا۔ یہ پتھر کا نشان اب تک شہدا موتہ کے مزارات کے میوزیم میں موجود ہے۔ اس روایت کی مقامی افراد اب تلک تصدیق کرتے ہیں۔ میں نے بھی پچیس سال قبل زیارت کی ہے۔
معتبر تواریخ بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ آپ کا سر مبارک مدینہ پہچنے سے پہلے دفن ہوا۔ ان سروں کے دفن ہونے کے بعد یہ مقام مسلمانوں کے مبارک قبرستان میں تبدیل ہوگیا۔ جہاں اب بہت سی شخصیات دفن ہیں۔ مصدقہ حوالوں کے مطابق فاطمی حکومت کے عہد میں یہاں روضہ تعمیر کیا گیا- جس کی تجدید عثمانی حکومت کے سلطان سلیمان قانونی نے کی۔ راہ کربلا و نجف میں بھی مقام زید شہید ع ہے۔ جہاں لگتا ہے آپکے کچھ اعضائے بدن دفن ہیں،یہ مضمون میں نے آج 3 صفر 1444 ہجری کو بعد فجر لکھا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here