یہ معاملہ کوئی اور ہے!!!

0
155
شبیر گُل

نہ تیرا خدا کوئی اور ہے نہ میرا خدا کوئی اور ہے
یہ جو راستے ھیں جدا جدا ۔ یہ معاملہ کوئی اور ہے
قادرمطلق، رب کریم نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ جو صرف خالق کائنات، رب جلیل، واحد و یکتا کے آگے جھکتا ہے۔ اسی کا حکم مانتا ہے۔ اسی کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے ۔ اوراسی سے مدد مانگتا ہے۔ اللہ جل شانہ نے جو انعام و عنایات اپنے بندے پر کی ھیں۔زندگی گزارنے کے طور طریقے اور معاشرتی حسن کی رعنائیاں عطا کی ہیں۔ وہ رب جلیل کا فضل وکرم ہے۔ رب واحد و قہار نے اپنے بندے کے لئے حدود و قیود طے کئے ھیں۔مالک کائنات نے معاشرتی اسلوب وضع کئے ہیں۔ جھوٹ، ملاوٹ، چوری فراڈ سود،شراب ،زنا کو حرام قرار دیا ہے۔ سزا اور جزا کا پیمانہ بتایا ہے تاکہ انسانی معاشرت میں بگاڑ پیدا نہ ہو۔ جو انسان اللہ رب العزت کے اس قانون اور قاعدے سے باہر نکلتا ہے۔ وہ اسکی الوہیت اور ربوبیت سے بغاوت کرتا ہے۔ اللہ پاک جہاں رحیم وکریم ہے۔ غفار و ستار ہے ۔ وہاں خالق ارض وسماں جبار ہے قہار ہے۔ وہ اپنے کارخانہ دنیا میں کیسے برداشت کرئے گا کہ اسکے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے۔ اسکے بنائے گئے قوانین سے سرکشی اور بغاوت کی جائے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلم معاشرہ یو۔ کلمے کی بنیاد پر مل حاصل کیاگیا ہو۔ ہر شخص قرآن کو اللہ کی کتاب مانتا ہو۔ لیکن اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے خلاف جنگ کرتا ہو۔ اللہ رب العزت نے حکمران،کے انتحاب کے لئے سچائی، ایمانداری،دیانتداری کو اہمیت دی ہے۔ اوصاف بتائے ہیں۔ لیکن انتحابی عمل میں داخل ہوتے ہی ہم ان آدب کو بھول جاتے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی فیصلوں میں اللہ اور رسول اللہ کی بتائی ہوئی ہدایات کو مسترد کرتے ہیں۔ جس کا اثر پورے معاشرے پر پڑھتا ہے۔ ایسے حاکم مسلط کرتے ھیں جو انسان دشمن پالیسیز بناتے ہیں۔ ظلم و جبر کرتے ہیں۔ اچھے خاصے مذہبی لیڈر بھی اسمبلی میں پہنچ کر قرآنی قوانین کے خلاف ووٹ دیتے ھیں۔اسلامی نظام تعلیم پر بات نہیں کرتے ۔ آرمی چیف،صدر مملکت، وزیراعظم، گورنرز، اور وزرا اعلی ،آئین پاکستان اور اٹھائے گئے خلف سے روگردانی کرتے ھیں۔بیرونی سرمایہ پر پلنے والے یہ لیڈر لبرل بننے کی کوشش میں ایک دوسرے پر سبقت رکھتے ہیں۔ سرگودھا سے ایم این اے حامد حمید نے قومی اسمبلی میں کہا کہ اتنا جلدی تو اللہ تعالی بیمار کو شفا نہئں دیتے جتنی جلدی وزیراعظم نے عوام کو ریلیف دیا ہے۔ اس پر دوسرے ارکان ڈیسک بجا کر اسے داد دے رہے تھے۔ استغفراللہ عمران خان کہتے ہیں کہ
قبر میں آپ سے پوچھا جائے گا!
قبر میں آپ سے پوچھا جائے گا کہ آپ نے عمران خان کا ساتھ کیوں نہیں دیا۔ کبھی اللہ اسکی تیاری کرواتے ہیں۔ کبھی جنگ بدر کی حوالے دئیے جاتے ہیں۔ اور کبھی ریاست مدینہ کا نام۔فی الحال یہی مال بکتا ہے۔ ریاستی ستون پارلیمانی سیاست کو چلنے نہیںدیتے۔ پاور کو تقسیم در تقسیم کرتے ہیں تاکہ اسٹبلشمنٹ کے خلاف آواز میں توانائی نہ آسکے۔موجودہ الیکشن میں فوجی بیانیہ دفن۔ بے اصولی کی سیاست میں مسٹر یوٹرن عمران خان امریکی مخالفت پر بھی یوٹرن لے سکتے ہیں،جیسے اسٹیبلشمنٹ کے لئے انکے دروازے کھل چکے ہیں۔پارلیمانی جمہوریت اس بدی کا نام ہے۔ جہاں ممبران پارلیمنٹ، اور ممبران اسمبلی لوٹے بنتے ہیں ۔ اپنا جسم اور ضمیر بیچتے ہیں، ووٹ کی عزت اور ڈیموکریسی کی بات کرتے ہیں۔ انصاف کی بات کرتے ہیں وہاں پنجاب کے اسپیکر اور آئندہ وزیراعلیٰ جنہیں عمران خان سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے ۔زرداری کا ڈپٹی پرائم منسٹر رہے، نواز شریف کی ٹیم کا حصہ رہے ، مشرف کے رائٹ مین رہے اب عمران خان کے پنجاب میں وزیراعلیٰ ہوں گے۔
یہ ہے پاکستانی سیاست کہ ایک نائیکہ کی طرح گلی گلی بکنے والے نہا دہو کر ہم پر مسلط ہیں۔ ضمنی الیکشنز میں نیوٹرلز نے مکس اچار پارٹی کو تنہا چھوڑ کر آئیندہ الیکشن میں ن لیگ کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ہار کے بعد ن لیگ فوج پر چڑھ دوڑی۔جو آئیندہ انکا بیانیہ ہوگا۔جسے اب عوام قبول نہی کرینگے۔ سیاسی اکابرین کو جوڑ توڑ اور لوٹے بازی سے باہر نکلنا چاہئے ۔ووٹ کو عزت دو کے بیانئے والوں نے تین ماہ میں لوگوں کی زندگی اجیرن کردی۔اسلئے عوام نے انہیں مکمل مسترد کردیا۔ باجوہ،نواز شریف،ڈیزل اور زرداری ہار گئے۔ اسٹبلشمنٹ کا سیاست سے بوریا بستر گول۔
بارہ جماعتی اتحاد کو بھی مستعفی ہو کر فوری الیکشن کیطرف جانا چاہئے۔
ملک میں سسٹم تباہ و برباد ہوچکاہے۔ عوام کا پولیس ، عدلیہ اور انتظامیہ سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ ان اداروں کے ستائے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں، پولیس اور عدلیہ غیض و غضب کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ تمام وسائل اور resources ھونے کے باوجود خزانے خالی ھوں اور ہمیں کشکول لئے در در بھیک مانگنا پڑے۔ عوام کے گلے میں مہنگائی کا طوق پہنانے والے موقع پرستوں کے گلے میں عوام نے ناکامی کاطوق ڈال دیا۔
ن لیگ کا اداروں اور اسٹبلشمنٹ کے خلاف کئی سال narrative بنانے کے بعد یکدم مفاہمت کی سیاست نے مسلم لیگ کا بھرکس نکال دیا۔پی ڈی ایم کے بیانئے کو شکست ھوئی۔شہباز شریف پہلے وزیراعظم ھیں جنکی کسی صوبہ میں حکومت نہیں۔شہبازشریف صرف اسلام آباد کیوزیراعظم ہیں۔ ضمنی الیکشن میں عمران خان کی کامیابی نے آئیندہ الیکشن میں نیوٹرلز کا جھکا ظاہر کردیا ہے۔
نظریہ پاکستان کے رکھوالے کڑوڑ کمانڈرز ۔ سیاسی منظر نامے پر قابض ۔ملکی وسائل پر قابض۔عدلیہ پر قابض۔ قیمتی پلاٹوں پر قابض جرنیل پٹ گئے۔
چوہتر سالہ تاریخ میں ڈکٹیٹروں اور دو سیاسی خاندانوں نے حکومت کی۔جنہوں نے ملک کو لوٹ لوٹ کر کھوکھلا کردیا۔اور ہم فخر سیکشکول اٹھائے پاکستان کو امت مسلمہ کا قلعہ قرار دیتے ھیں۔جوہری صلاحیت کاحامل ۔بائیس کڑوڑ کی آبادی کا ملک بھیک مانگے۔ ؟
چوبیس گھنٹے کام کرنے والی عدلیہ جو دنیا میں ماشااللہ 126 نمبر پر ھو۔
پولیس دنیا کی کرپٹ ترین پولیس ہے۔ جو غنڈہ کی مخافظ،چوروں کی پشتبان اور ملک دشمن کو پروٹوکول دیتی ہے۔
الیکشن کے فیصلے بند کمروں میں ھوں۔
عوام کی ووٹ ڈالنے سے پہلے ہی خفیہ ہاتھ الیکشن کا رزلٹ تیار کرلیں۔ہارے ہوئے امیدواروں کو آدھی رات جگا کر جیت کی نوید سنائی جائے۔توایسے الیکشنز ملک میں انار کی پیدا کرسکتے ہیں۔ سسٹم پرعوام کی بداعتمادی سے خونی انقلاب آ سکتا ہے۔
جتنا نقصان اس ملک کو سیاسی لٹیروں نے پہنچایا ہے اتنا ھی جرنیلوں نے پہنچایا ہے۔
پاک آرمی پر برٹش آرمی کی چھاپ ہے۔ انکے ہیروز برٹش ہیں۔ کوئی اسلامی ہیرو انکا ہیرو نہئں ہے۔ مزائیلوں کے نام ہیروز کے نام پر رکھنے سے بات نہیں بنتی جب تک ذہنی غلامی رہے گی۔انکی سوچ اور کردار منافقانہ ،تحکمانہ اور فاشسٹ ہی رہے گا۔جرنیلوں نے بار بار سیاسی معاملات میں مداخلت کرکے پوری دنیا میں جگ ہنسائی کروائی ہے۔
جب تک آرمی اسٹرکچر تبدیل نہئں ھوگا ۔ یہ آرمی مسلم آرمی نہیں بن سکے گی۔
قوم بھوکی مرئے اور جرنیلوں کی اربوں کھربوں کی بیرون ملک جائدادیں۔ سینکڑوں پیزے،گیس اسٹیشن اور فوڈ کی چینیں۔جزیرے اور پلازے۔ اس بدمعاشیہ کو کون پوچھے گا۔؟
مسلمان ملکوں کی فوجیں ان کے لیے ایک مصیبت بن چکی ہیں!
. سید ابو الاعلی مودودی رح ساٹھ سال پرانی تحریر ہے کہ
“مسلمان ملکوں کی فوجوں میں بہت جلدی یہ احساس پیدا ہوگیا کہ آمریت کا اصل انحصار انہی کی طاقت پر ہے۔ یہ احساس بہت جلدی فوجی افسروں کو میدانِ سیاست میں لے آیا اور انہوں نے خفیہ سازشوں کے ذریعہ سے حکومتوں کے تختے الٹنے اور خود اپنی آمریتیں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب مسلمان ملکوں کے لیے ان کی فوجیں ایک مصیبت بن چکی ہیں۔ ان کا کام باہر کے دشمنوں سے لڑنا اور ملک کی حفاظت کرنا نہیں رہا بلکہ اب ان کا کام یہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں کو فتح کریں اور جو ہتھیار ان کی قوموں نے ان کو مدافعت کے لیے دیے تھے انہی سے کام لے کر وہ اپنی قوموں کو اپنا غلام بنا لیں۔
اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے انتخابات یا پارلیمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہو رہے ہیں اور یہ فوجیں بھی کسی ایک قیادت پر متفق نہیں ہیں بلکہ ہر فوجی افسر اِس تاک میں لگا ہوا ہے کہ کب اسے کوئی سازش کرنے کا موقع ملے اور وہ دوسرے کو مار کر خود اس کی جگہ لے لے۔ اِن میں سے ہر ایک جب آتا ہے تو “زعیمِ انقلاب” بن کر آتا ہے اور جب رخصت ہوتا ہے تو “خائن اور غدار” قرار پاتا ہے۔
مشرق سے مغرب تک بیش تر مسلمان قومیں اب محض تماشائی ہیں۔ ان کے معاملات چلانے میں اب ان کی رائے اور مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ان کے علم کے بغیر اندھیرے میں انقلاب کی کھچڑی پکتی ہے اور کسی روز یکایک ان کے سروں پر الٹ پڑتی ہے۔ البتہ ایک چیز میں یہ سب متحارب انقلابی لیڈر متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ اِن میں سے جو بھی ابھر کر اوپر آتا ہے وہ اپنے پیش رو ہی کی طرح مغرب کا ذہنی غلام اور اِلحاد و فِسق کا علم بردار ہوتا ہے۔ ”
آئیندہ کچھ روز میں مریم نواز ،خواجہ آصف اور نواز شریف فوج کے خلاف شام غریباں کا بپا ھونا ایک فطری عمل ہے مگر عمران خان ایک بار پھر جرنیلوں کی طرف ہاتھ بڑھائینگے۔یہ چوہے بلی کا کھیل عوام کو بیووقوف بناتا رہے گا۔ اور اصل مسائل انکی بھینٹ چڑھتے رھنگے۔ پاکستان میں مذہبی جنونیوں،سیاسی فطونیوں اور غیر سنجیدہ منافقوں ۔کرپٹ ظالموں اور قبضہ مافیاکو ووٹ ملتارہے گا۔یہ فیوڈل سسٹم عوام کی تقدیر نہیں بدلے گا۔یہاں ابھی جماعت اسلامی جیسے نظریاتی،اعتدال پسند،حقیقی شرفا اور دیانتدار کو ووٹ نہیں ملے گا۔ہم ایمانداری دیانتداری ،حب الوطنی اور اسلام پسندی کے قائل ضرور ہیں۔ مگر اپنی ذات اور گھر سے باہر۔
منافقت کا کلچر ہماری رگوں میں رچ بس چکا ہے۔ جس نے ہماری اخلاقی قدروں، تہذیب و ثقافت کو بدل دیا ہے۔ ہمیں اپنی سوچ کے زاویے تبدیل کرناہوں گے تاکہ ہم اسلام کی نشاہ ثانیہ اور کھوئی ہوئی منزل پاسکیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here