شگفتہ شفیق نژونظم میں یکتا، زبان وبیان میں شائستہ اور نقدونظر میں شگفتہ ہیں۔ جذبات میں شدت اور احساس میں جدت ہے۔ ان کی شاعری سادہ وسلیس ہے۔ آپ بیتی کا بیان ہے۔ کہانی کاربھی ہیں اور گلستان شاعری میں غنچہ نو بہار بھی۔ زندگی کے تلخ حقائق پر نظر بھی ہے اور ہر شعر شب تیرہ وہ تاریک میں مژوہ سحر بھی ہے۔ ان کے اشعار میں ساحری کارنگ اور کیفیات کا ڈھنگ ہے۔ بام وجدان سے سرشار، آتش عشق سے گلنار اور کشائش زیست سے برسرپیکار ہیں۔ بنیادی طور پر نظم کی شاعرہ ہیں۔ نظم موضوعاتی ہوتی ہے۔ ان کی نظموں کے موضوعات ذاتی رنجشوں اور زمانے کی بے اعتنائیوں پر مبنی ہیں۔ نظم میں تسلسل فکر قائم اور وحد مضمون دوائم ہوتی ہے۔ خارجی دنیا پر نظر رہتی ہے جو داستان زندگی کہتی ہے۔ جب نظمیں داخلی اور ذاتی محرکات کی پیداوار ہوں تو وہ غزل کا رنگ وآہنگ رکھتی ہیں۔ اسی لئے ان کی نظموں کو معروف شاعر اور نقاد تسلیم الٰہی زلفی نے جدید نظم کہا ہے۔ شگفتہ کی غزلیات اور نظمیں جہاں آپ بیتی کی داستان صدرنگ ہیں، وہاں کہیں کہیں جگ بیتی کے معاملات بھی مذکور ہیں۔ اشعار میں تازگی اور برجستگی ہے۔ کہتی ہیں۔
طلب عشق مٹا دی ہم نے
اس کو روکا نہ صدا دی ہم نے
خواب لوگوں نے جلا ڈالے تھے
راکھ راہوں میں اڑا دی ہم نے
شگفتہ شفیق کراچی کی رہائشی ہیں۔ انہوں نے اپنے تین شعری مجموعے ارسال کئے۔ جن کے عنوان ”میرا دل کہتا ہے” ”یاد آتی ہے” اور ”جاگتی” آنکھوں کے خواب ہیں۔ ”میرا دل کہتا ہے” ان کا اولین شعری مجموعہ ہے۔ یہ غزلیات اور نظموں کا حسین مرقع ہے۔ گلدستہ درد ہے۔ جذبات کا سیل رواں ہے۔ ہر شعر وفنواز ودل گزار و نغمہ طراز ہے۔ کتاب احساسات کی بیاض ہے۔ خالص شاعری کا سرچشمہ دل ہے۔ شگفتہ کی شاعری ول کی آواز ہے۔ جذبہ وشعور باہم مربوط اور وجدان وفکر کا ر شتہ مضبوط دکھائی دیتا ہے۔ زندگی تلخ وشیریں واقعات کا مجموعہ ہے۔ شگفتہ کے ہاں تلخیاں اور آنسو زیادہ ہیں۔ عاشقی میں پیکر پاکیزہ ہیں اور افلاطونی عشق کا شاہکار ہیں۔ کہتی ہیں۔
”شکوہ شکایت کبھی نہ کیا
ہمیشہ ہی اپنے لبوں کو سیا
کھلے میرے من میں بہاروں کے پھول
ترا نام چپکے سے جب بھی لیا
افلاطون روھوں کے ملاپ کو عشق صادق کہتا ہے جبکہ انگریز شاعر لارڈ بائرن کا نظریہ عشق جنسیات کے اردگرد گھومتا ہے۔ کوئی احساسات اور کوئی محسوسات کا امیر ہے۔ ”میرا دل کہتا ہے”زندگی کے حبس زدہ زندان میں ہوا کا تازہ جھونکا ہے۔شاعری اور موسیقی۔ ایک ہی سکے کے دورخ ہیں جس شاعری میں موسیتیت نہ ہو وہ چشم ناز نہیں بلکہ چشم نرگس ہے، نہ بصارت اور نہ بصیرت۔ انگریزی شاعری میں ولیم شیکسپئر ولیم ورڈز روتھ، شیلے بائرن اور جان کینس کی شاعری بے حد مترنم ہے جبکہ فارسی میں حافظ شیرازی، امیر خسرو اور اردو میں میرتقی میر اور فیض احمد فیض کی شاعری عنائیت کی آئینہ دار ہے۔ شگفتہ شفیق کے اندر ایک ترنم ہے جو شعر کی صورت رقص کناں ہے اور موسیقی کے دھاروں پر بہتا ہے۔ ایک نظم بعنوان ”تم” سے چند سطور ملاخطہ کیجئے۔
جومڑ کے پیچھے کبھی ہم نے دیکھا
تو یادوں کے جھروکوں سے
اْجلی اْجلی روشن صبحیں
ساری پیاری پیاری راتیں
اور ان سب کے محور ہو تم
نام تمہارے میرا جیون
ایزل ور بس زیور تم
زیور عورت کی فطری کمزوری ہے۔ حسن ظاہر کو یہ سنوارتا اور غنچہ نفسیات کو نکھارتا ہے لیکن شگفتہ شفیق کے ہاں نہ مال وزر اور نہ متاع زیور کی کوئی حیثیت ہے۔ وہ متاع محبت کی گرویدہ اور سردو گرم زندگی چشیدہ ہیں۔ ایک غزل میں کہتی ہیں۔
کشکول میرے ہاتھوں میں خالی ہی رہ گیا
یوں بخت آزمائی کی مجھ کو سزا ملی
”میرا دل کہتا ہے” کی اکثر نظموں کا ایک ہی رنگ وآہن ہے۔ ذاتی غم واقتدار زمانہ۔ چاہت کا رنگ، ادراک، صرف تیرے نام، ساون اور تم اداسی ہی اداسی شفیق کے لئے اجلا میرا گھر ایسی نظمیں ہیں جو داستان ہجر اور آواز دلخراش ہیں۔ شگفتہ ذاتیات کے خول کی امیر نہیں بلکہ وہ خواب زندگی کی تعبیر بھی ہیں۔ معاشرے سے منسلک بھی ہیں۔ ان کی سماجی نظموں میں ورکنگ وومن، فریاد، زلزلہ، ماں اور بیٹا، مشرقی بیوی، دہشت گردی کاشکار، بھائی چارہ ستمبر1965ء کے شہیدوں کے نام اور سیلاب زدگان کے اشک پوچھیں ہم قابل ذکر نظمیں ہیں۔ چند استواری نظمیں بھی ہیں جن کی بہت اہمیت ہے۔ میرا خوبصورت ساون، تم اور ساون اور ساون کا موسم ایسی نظمیں ہیں جن میں ساون بطور استعارہ آیا ہے۔ ساون کے موسم میں شاعرہ کی آنکھوں سے اشکوں کی جھڑی لگتی ہے اور روح کا غسل ہوجاتا ہے۔ بارش کا استعارہ بھی نظموں میں جا بجا ملتا ہے جو شاعرہ کے سوزوروں کا اشارہ ہے۔ شگفتہ شفیق یا …..کی نہیں، رجائیت کی شاعرہ ہیں۔ کہتی ہیں۔
کوئی پل خوشی کا نہیں زندگی میں
اداسی ہے اتنی کہ گھبرا گئی ہوں
تو بس راستے کا ایک شجر تھا
جو منزل تھی میری اسے پا گئی ہوں
”یاد آتی ہے” شگفتہ شفیق کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ یہ صرف نظموں پر مشتمل ہے۔ حسرت موبانی نے کہا تھا کہ نہیں آتی تو یادان کی مہینوں تک نہیں آتی مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں۔ دراصل یاد وہ آتا ہے جسے بھلا دیا جائے اور کبھی کبھار جب یاد آجائے تو تڑپا جائے۔ فیض احمد فیض کہتے ہیں دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے فیض صاحب اشتراکی تھے۔ غم دوراں کو غم جاناں پر فوقیت دیتے تھے جبکہ غالب کا فرمودہ ہے۔
گو میں ربابین ستم ہائے روزگار لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا شگفتہ شفیق کے دل پر کیف وکیفیت غالب ہی غالب نظر آتی ہے۔ اور وہ یاد ماضی کی زلف گرہ گیر کی اسیر نظر آتی ہیں۔ یعنی”سلسلہ ٹوٹا نہیں دروکی زنجیر کا” سا معاملہ ہے۔ ”یاد آتی ہے” میں159نظمیں ہیں۔ زیادہ تر آزاد نظمیں ہیں۔ ساحرلدھیانوی” ن م راشد اور فیض نے بھی آزاد نظمیں لکھی ہیں۔ اس مجموعہ میں بھی زیادہ تر منظومات ذاتی کرب کا اظہار ہیں۔ عید کا درو دسمبر کا مہینہ ساون اور رم جھم بارش کے استعارے جا بجا ملتے ہیں۔ ماہی اتحاد اور سکھ ایسی جاندار نظمیں ہیں جو جاگیرداری اور سرمایہ داری سے اعلان بغاوت ہے۔ شگفتہ شفیق کا تیسرا شعری مجموعہ بعنوان” جاگتی آنکھوں کے خواب” ہے۔ یہ بھی خوابوں اور سرابوں کی شاعری ہے۔ اس میں46غزلیات اور42نظموں کے علاوہ چند قطعات بھی شامل کئے گئے ہیں۔ شدت جذبات اور کرب روح نمایاں ہیں۔ ساغر صدیقی نے جبر مسلسل کا رونا رویا تو شگفتہ شفیق ہجر مسلسل کی زندانی ہیں۔ نظموں میں”عزم” اور ”سوچ” حب الوطنی کی آئینہ دار ہیں اور نظم بعنوان”عبدالستار ایدھی” خدمت ملت کا وقار ہے۔ میرا سائیں”نظم میں ایک باوفا اور باحیا مشرقی بیوی کے روپ میں جلوہ گر ہیں۔ شوہر باشعور نے بھی شاعرہ بیوی کے نہ صرف جذبات کا احترام کیا بلکہ ان کے ذوق شعری کو چار چاند لگانے کا بھی عمر بھر اہتمام کیا۔
٭٭٭٭٭