زندہ قومیں اپنے ہیروز کو مرنے نہیں دیتیں اور انکی یادگار مقبرہ کی شکل میں میراث کے طور پر رکھتی ہیں ،اپنے گھروں کی طرح یہ حقیقت ہم نے کیوبا پہنچ کر جانی ،جانے سے پہلے ہم کشمکش میں گرفتار تھے۔ بیگم بار بار پوچھتیں تم EXCITED ہونہ ہمارا جواب خاموشی میں ہوتا۔ لیکن شکریہ ہمارے اللہ بخش(اے بی صاحب) کا ورنہ یہ کچھ جو لکھ رہے ہیں اور بہت کچھ جو دماغ اور دل پر نقش ہے نہ ہوتا۔ ہر چند کہ سفر کٹھن تھا اور موسم بے وفا(شدید گرمی اور رطوبت سے بھرا) لیکن جب ساتھ پسندیدہ دوستوں کا ہو تو راستہ گل گلزار ہوتا ہے۔ اے بی اور طاہر خان سفر کے دلچسپ ہم سفر تھے اور ہم پیچھے پیچھے اطراف کا نظارہ اور گلیوں کی رونقین موسیقی، شراب خانے، فیسٹیول اور ریستورانوں میں پسند کی چیز ڈھونڈتے تھے۔ اے بی(ملک اللہ بخش) حسب معمول منزجم تھے ورنہ ہم گونگے بہرے کیا کرتے ،وہ شام گزر گئی جمعہ کا دن تھا تو اے بی نے اعلان کیا ”دوستوں کل صبح ہم یہاں کا مشہور بیچ دیکھنے جائیں گے، ہم اور بیچ(ساحل سمندر) طاہر خان ہنس دیئے لیکن بولے نہیں ہم سمجھ گئے۔ اے بی بھی نہیں رہے تھے جی چاہا کہہ دیں کہ ہم آرام کرینگے لیکن ایسا ممکن نہ تھا۔ دوسری صبح منیجر کا دن تھا ٹیکسی باہر کھڑی تھی لینڈ لیڈی نے اطلاع دی ہم تیار تھے۔ دیکھنے میں ٹیکسی زیادہ پرانی نہ تھی لیکن اسکی سیٹیس اپنا وقت پورا کر چکی تھیں اور معلوم ہوا جب شہر سے ہائی وے پر آئے زیادہ دور نہیں اس جگہ کا نام ویراڈارو (VARADERO) تھا، یہ ساحل اپنے بھلگوں بانی سفید ریت اورنیلے آسمان کے نیچے میلوں تک گیا ہے۔ شمال میں ساحل پر زیادہ لوگ نہ تھے۔ اے بی نے وہاں کے تنظیم سے کچھ کہا ہم ریت پر بچھی آرام د ہ کرسیوں پر پائوں پھیلا کر لیٹ گئے اور اوپر بڑی بڑی چھتریاں لگا دی گئیں۔ تاکہ ہم فریڈ ٹین ہونے سے بچیں دوسرا ملازم ناریل ہاتھ میں تھامے اور اس میں STRAW ڈالے لے آیا۔ طبیعت خوش ہوئی اور قمر علی عباسی مشہور سیاح یاد آئے سوچا کہ وہ ہوتے تو کیا لکھتے سامنے لڑکے لڑکیوں پر عمر کے سیاحوں کی تعداد بڑھتی رہی سامنے سمندر کے بیچ من چلے طرح طرح کے کرتب کر رہے تھے۔ گول اور لمبی چھتریوں کی مدد سے اے بی صاحب کی آواز وہ دیکھیں اب معلوم نہیں انکا مطلب سامنے تھا یا دائیں طرف جہاں سے محترمہ اپنے کھلے لباس میں اپنے آدمی کے ساتھ آرہی تھیں ہم نے کروٹ لی۔ طاہر خان نے پوچھا کیا ہوا اب ہم اتنے بدذوق بھی نہیں۔ اس سے بہتر جواب قمر علی عباسی دیتے مگر وہ نہیں تھے اور جیسے کہہ رہے ہوں لو میاں تم سنبھالو بقیہ خرافات ہم تو سفر کر چلے اور لکھ بھی چکے جو یادگار سفرنامے ہیں۔ ہم کہیں گے پڑھئے فرق اتنا ہے کہ ہم نے یہ کچھ ON LOCATION پر لکھا ہے اور بقول انکے پڑھنے والوں کے جنہوں نے کبھی انکے سفرنامے نہیں پڑھے۔ گھر کے ڈائننگ روم کی ٹیبل پر لکھا ہے ہمارا سوال ”تو اور کہاں لکھتے؟” دوسروں کی کاوشوں اور صلاحیتوں کو خراج تحسین بھیجو کہ وہ شعور دے جاتے ہیں۔ گرمی تھی اور اسکے ساتھ جس دو گھنٹہ گزارے۔ باہر آئے اے بی نے کرسی اور چھتریوں کا کرایہ دیا۔ ہمارا گائیڈ اور ٹیکسی ڈرائیور ساحل سمندر سے لگی سڑک کے ساتھ گلی میں منتظر تھا ٹیکسی میں بیٹھتے ہی فرمائش ہوئی۔ کافی پی جائے گورنمنٹ کے کیفے میں جا بیٹھے ویٹر نے بتایا دودھ نہیں ہے۔ شکر بھی نہ ہوگی طاہر خان نے حیرت سے کہا اور ہم دوسرے کیفے کی تلاش میں روانہ ہوئے مگر ناکام شام ہونے میں دو گھنٹے ہونگے اور اتنا ہی وقت درکار تھا۔125کلومیٹر فاصلہ طے کرنے میں ہوانا تک۔ طے ہوا ہوانا پہنچنے سے پہلے کچھ کھا لیا جائے۔ شاید یہاں کوئی مختلف، چیز مل جائے لب سڑک ریستوران تھا ہم نے کہا پوچھو پیزا ملے گا اے بی نہیں پڑھے بولے”نیویارک سے لے کر چلنا تھا۔ لیکن دیکھئے صاحب ڈرائیور باہر آیا بولا” یہ پیزا نہیں بناتے لیکن ایک میل کے بعد دائیں مڑو تو ایک ڈھایہ(بس روٹ پر جو ہوٹل ہوتے ہیں پاکستان میں) ہے وہاں پیزا ملے گا۔ امید تو نہ تھی اور تھی زیادہ نہ تھی نہ جانے اس علاقے میں پیزا کون کھاتا ہوگا۔ اطالوی لوگ یہاں کب آئے ہونگے یہ قوم تو بے جاری ٹوٹے چاول اور دالوں پر گزارا کرتی ہے لیکن ایسا نہ تھا۔ بہت طریقے کا لکڑی پر بنا چھیروں سے ڈھکا ریستوران تھا جہاں ایک بندہ بیٹھا رم پی رہا تھا۔ اور کائونٹر پر تین خوبصورت لڑکیاں کھڑی ہمیں دیکھتے ہی لپکیں جیسے پرندہ جال میں پھنس گیا ہوا ایک لڑکی مینولے کر آگئی دوسری کرسیوں کو میز سے نکال کر بیٹھنے کی جگہ بنا رہی تھی اور دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ سب سے پہلے ڈرائیور نے آرڈر دیا ایک پلیٹ اپیگٹی(spagetti)کا اور تین ویجیٹیل ٹاپنگ کے پیزا آرڈر کئے انفرادی طور پر آدھا گھنٹہ لگا ہوگا بڑی ٹرے میں سجائے بھاپ اُگلتے اور پیاز جیل مرچ، زیتوں اور تازہ ٹماٹر سے سجائے پیزا سامنے تھے، دس دس انچ کے اے بی بولے ”زیادہ منگوا لئے دو سے کام چل جاتا لیکن صاحبو ہم تینوں نے اپنا اپنا پیزا مزے لے لے کر کھایا۔ راز کی بات یہ تھی کہ زندگی میں نیویارک میں جو پیزا کا گڑھ ہے اتنا لذیز گورمیٹ اور کرسچی پیزا نہ کھایا ہوگا جی چاہا ایک پیزا ٹیک آئوٹ کرلیں کل کے لئے مگر وقت نہ تھا ایک تو پیزا اس قدر عمدہ مزیدار اور جب بل دیکھا تو حیران پیزا کی فضیلت بڑھ گئی ڈرنک کے ساتھ بل صرف ساڑھے تئیس ڈالر کا تھا۔ یہ تو معلوم تھا وہاں پیٹرول پانی سے سستا ہے لیکن یہ انمول پیزا اے بی نے کہا اس پیزا والے کو لے چلتے ہیں ہم نے لڑکی سے اشارے سے پوچھا پیزا کہاں بنتا ہے اس نے دائیں طرف اشارہ کیا۔ جاکر پیزا بنانے والے کیوپن کو شکریہ کہا اور500 کا نوٹ بھی دیا۔
طاہر خان بولے”کامل صاحب لڑکیوں کا کیا قصور ہے بات مناسب تھی۔ حق بحق دار، سید پانچ پانچ سو کے دو نوٹ ان کی سروس پر نچھاور کئے۔ اس میں مسکراہٹ بھی شامل تھی،طاہر خان کو راز کی بات بتائی، طاہر صاحب کسی کو دینے سے کتنی خوشی ہوتی ہے بجائے لینے کے ،بتاتے چلیں کہ1500پیسے صرف دس ڈالر سے کم تھے۔ باقی بل اے بی نے مزید ٹپ کے ساتھ چھوڑا تھا۔ وہ بھی خوش ہم بھی خوش، یہ ایک یادگار ٹرپ تھا۔ پیزا کی بدولت جاری ہے۔ آئندہ چی گوارا کے مقبرے کا سفر۔
٭٭٭٭