وزیر اعظم شہباز شریف اور متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان نے دو طرفہ تعلقات مضبوط بنانے پر اتفاق کیا ہے۔رحیم یار خان میں ہونے والی ملاقات میں اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے کے مشترکہ عزم کا اظہار کیا گیا۔وزیر اعظم نے جہاں مشکل وقت میں ساتھ دینے پر متحدہ عرب امارات کی قیادت کا شکریہ ادا کیا وہاں اماراتی صدر شیخ محمد بن زید النہیان نے دو طرفہ تعاون و سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا ہونے کا اعتراف کیا۔یو اے ای کے ساتھ پاکستان کے برادرانہ تعلقات ہیں۔کئی بین الاقوامی امور پر مشترکہ موقف ، مسلم دنیا کے مسائل اور دو طرفہ گرمجوشی نے ان تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔ پاکستان اور عرب امارات کے برادرانہ تعلقات کی تاریخ ہے۔دسمبر 1971 میں یو اے ای کے قیام کے بعد سے، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات سیاسی طور پر نئی جہت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ معاشی اور سماجی تعلقات میں وسعت قابل اعتماد اسٹریٹجک شراکت داری میں ڈھلتی ہے۔متحدہ عرب امارات پاکستان میں سب سے بڑے سرمایہ کاروں میں سے ایک ہے ۔ دوطرفہ تجارت گزشتہ برسوں سے مسلسل بڑھ رہی ہے اور عوام سے عوام کے رابطوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات اپنی فراخدلی انسانی امداد، استحکام، رواداری، اختراع، بہتر صحت اور تعلیم کے وژن کی وجہ سے دنیا کے تمام ممالک میں مشہور ہے۔وہاں کے کتاب میلے اب پاکستانی ادب اور ادیبوں کو یو اے ای میں متعارف کرانے کا باعث بن رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے بانی شیخ زید بن سلطان النہیان شروع سے ہی دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو تقویت دینے کے خواہشمند تھے۔ اسے متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان اور دبئی کے نائب صدر، وزیر اعظم اور حکمران شیخ محمد بن راشد ال مکتوم نے مزید تقویت اور سرپرستی فراہم کی ہے۔ دونوں ممالک دوستی کے بندھن کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اپنے مضبوط عزم کا گاہے گاہے اعادہ کرتے ہیں۔ وہ گہرے اور تاریخی تعلقات کی عکاسی کرتے ہوئے متنوع شعبوں میں اپنے دوطرفہ تعاون کے افق کو وسعت دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔پاکستان کو زرمبادلہ کا بڑا حصہ دوسرے ممالک میں مقیم محنت کشوں کے ذریعے ملتا ہے ۔متحدہ عرب امارات میں تقریبا اٹھارہ لاکھ پاکستانی تارکین وطن کام کر رہے ہیں ۔ان پاکستانیوں نے دو ہزار چوبیس میں سب سے زیادہ 5.5 ارب ڈالر بھیجے جس نے پاکستان کی میکرو اکانومی میں نمایاں کردار ادا کیا۔یو اے ای پاکستان امدادی پروگرام جنوری 2011 میں شروع کیا گیا تھا جس کی مجموعی لاگت 450 ملین امریکی ڈالرز سے قبائلی پٹی کے صوبہ خیبر پختونخواہ، باجوڑ اور جنوبی وزیرستان کے اضلاع میں تباہ کن سیلاب اور قدرتی آفات سے تباہ ہونے والے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کے لیے کی گئی۔پاکستان میں کئی ہسپتال اور رفاحی منصوبے یو اے ای کے تعاون سے چل رہے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے پاکستان معاشی بحالی کی جدو جہد میں ہے۔باقی ممالک کے ساتھ ساتھ عرب دوستوں سے رجوع کیا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔ پاکستان سرکاری اور نجی سرمایہ کاری کے لیے سرکاری اداروں، زراعت، تیل اور گیس کی تلاش، ہوا بازی کی صنعت، کان کنی اور معیشت کے دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ابتدائی طور پر تین دوست خلیجی ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے اگلے پانچ سالوں میں پاکستان میں 25 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی پچھلی حکومت نے ‘ممکنہ’ خلیجی سرمایہ کاروں کو پالیسی میں تسلسل پر کچھ راحت فراہم کرنے کے لیے عسکری قیادتکی مدد سے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل قائم کی ۔ایس آئی ایف سی نے سرمایہ کاری کے راستے میں آنے والی رکاوٹیں ختم کیں۔جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، اسلام آباد نے اپنی خلیجی سرمایہ کاری کی توقعات کو مزید حقیقت پسندانہ سطح پر ایڈجسٹ کرنا جاری رکھا۔ کراچی کی بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے میں ایک اماراتی سرمایہ کاری اور ایک پاکستانی آئل مارکیٹنگ کمپنی میں شیئر ہولڈنگ کا سعودی حصول اسی سے ممکن ہو سکا۔ پاکستان میں زراعت ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، کیمیکل ،ہنر مندافرادی قوت،توانائی،ٹرانسپورٹ،انفراسٹرکچر سمیت کئی شعبے ایسے ہیں جہاں یو اے ای کے لئے مواقع موجود ہیں۔دونوں ممالک کی قیادت اور عوام ایک دوسرے سے مذہبی، ثقافتی اور سیاسی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں اس لئے مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ کی گئی سرمایہ کاری یقینی دو طرفہ فوائد لا سکتی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے لئے یہ اہم ہے کہ وہ ھالیہ عرصے میں کچھ نمودار ہونے والے مسائل پر اماراتی قیادت کو اعتماد میں لیں۔پاکستان کے تشخص کو گداگر مافیا نے بہت نقصان پہنچایا ہے،پاکستان نے دوست ممالک میں بھیک مانگنے والے افراد کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے،اسی طرح آزاد ویزہ پر امارات جا کر غیر ضروری تنازعات میں الجھنے والے افراد کا سدباب کیا جانا چاہئے۔پاکستان سے پھول، پھل، سبزیاں بڑی مقدار میں یو اے ای جا سکتی ہیں،حکومت کو اس سلسلے میں بات کرنی چاہئے۔یو اے ای میں شجر کاری کے لئے پاکستان تعاون فراہم کر سکتا ہے۔مرحوم شیخ زید بن النہیان کہا کرتے تھے کہ پاکستانی لوگ بہت اچھے ہیں بس انہیں حکمران اچھے نہیں ملے۔پاکستانی قیادت کو اماراتی قیادت سے یہ ضرور سیکھنا چاہئے کہ قانون کی بالا دستی کس طرح معاشی قوت میں اضافہ کرتی ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کو اماراتی قیادت کے ساتھ سرمایہ کاری کی تلاش اور نگرانی کے لئے دونوں ممالک کے کاروباری افراد پر مشتمل کمیٹی بنانے پر غور کرنا چاہئے۔
٭٭٭