عوامی اعتماد ایک ذمہ داری! !!

0
62
پیر مکرم الحق

کسی کا اعتماد بھی ایک ذمہ داری اور ایک بوجھ ہوتا ہے اور عوام کا اعتماد بھی ایک بھاری ذمہ داری ہوتی ہے۔ عوام تو الا اعلان آپ کو ووٹ دیکر اعتماد کا اظہار کرتی ہے۔ اب اس رہنما کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس اعتماد پر پورا اترے عوام کی توقعات پر پورا اترے۔ ایک رہنما سے عوام کی کیا توقعات ہوتی ہیں؟ یہی کہ جو آپ نے عوام سے وعدے کئے ہیں، پورے کریں، ہر مرحلے پر ہر بڑے فیصلے کرتے ہوئے عوام کو اعتماد میں لیں ان سے مشورہ کریں۔ مسئلہ یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے والے لوگوں میں ظرف کی کمی ہو تو وہ اپنے آپ کو نہایت عاقل اور عالم سمجھ کر اپنی مرضی سے فیصلہ کرنا شروع کردیتے ہیں یہیں سے تنزلی کا آغاز ہوتا ہے۔ خود اعتمادی اچھی چیز ہے لیکن اگر پانی جو بھی بہت اچھی چیز ہے اگر حد سے زیادہ پی لیں تو موت بھی واقعہ ہوسکتا ہے۔ ہر اچھی چیز کی زیادتی بھی ہوتی ہے سیاسی جلسہ اسی لئے کہے جاتے ہیں کہ عوام کی رائے حاصل کریں کہ آخر عوام کیا چاہتی ہے، لیکن اگر عوام بھی اگر کسی غلط سمت پر جارہی ہے تو ایک اچھا رہنما ایک اچھے اُستاد کی طرح انہیں آگاہ کرے کہ نہیں جس سمت میں آپ نہیں اس میں آپ کی ہماری بھلائی نہیں ہے۔ اگر کوئی رہنما جلسہ کے اسٹیج پر کھڑا ہو کر نفرتوں کی بیج بوتا ہے تو وہ عوام دشمنی کا مرتکب ہوتا ہے۔ نفرتیں تقسیم تو کرسکتی ہیں تعمیر نہیں کرتی ہیں لیکن کچھ رہنما سہل راستہ اپناتے ہیں بجائے لوگوں کو محبتوں کا درس دیں وہ نفرت پیدا کرکے انہیں آپس میں لڑا کر اپنا الو سیدھا کرنے کی سعی کرتے ہیں۔”DIVDE AND RULE” کا اصول وقتی طور پر توکارگر ہوسکتا ہے لیکن آگے چل کر یہ حکمرانوں کیلئے بھی وبال جان بن جاتا ہے۔ نفرت کی آگ کیمیائی آگ کی طرح جلد بھڑک اُٹھتی ہے۔ پھر سب کچھ جلا کر راکھ بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس محبت کی آگ گیلی لکڑی کی آگ کی طرح ایک ”مچ” بن جاتی ہے۔ یہ آگ دھیرے دھیرے سلگتی رہتی ہے ساری رات محبت کا مچ جلتا رہتا ہے سلگتا رہتا ہے۔ دور اندیش سیاسی رہنما ایسے راستے چنگتے ہیں جن پر چل کر عوام کے مسائل کا مستقبل حل نکل آئے۔ کسی بھوکے کو مچھلی دیکر اسکی بھوک مٹانے سے بہتر ہے کہ اسے مچھلی پکڑنے کے اوزار اور طریقہ کار دیدو تاکہ اسے آپ کی مچھلی ملنے کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ پاکستان میں انتخابات کا اعلان الیکشن کمیشن نے کردیا ہے جسکے مطابق29جنوری2024کو انتخابات ہونے کا شیڈول دیدیا گیا ہے۔ اب عوام کا پہلا مطالبہ ہے ہونا چاہئے کہ ہر سیاسی جماعت اپنا منشور دے کر وہ عوام کے مسائل کس طرح اور کتنی آئیں ایک ایک مسئلہ کی تشریح کریں پھر اس مسئلہ کا حل تجویز کریں اور پھر اس چل کو پورا کرنے کا ٹائم ٹیبل دیں اگر عوام انہیں اقتدار میں لے آتی ہے تو پہلے کسی مسئلہ یا مسائل پر کام شروع ہوگا۔ اپنی ترجیحات اور پروگرام کی وضاحت کی جائے۔ پہلے سال میں اگر اس برسراقتدار سیاسی جماعت نے اپنے کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے تو انہیں پھر خود ہی اقتدار سے الگ ہونا پڑیگا۔ بصورت دیگر انکے خلاف عوامی احتجاج شروع کیا جائیگا۔ جب تلک اپنے مسائل کے حل کیلئے عوام خود تگ ودو نہیں کریگی کوئی سیاسی جماعت پلیٹ میں ڈال کر انکی مشکلات کا حل نہیں پیش کریگی۔ انفرادی طور پر بھی مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کا بھی عوامی احتساب ہونا چاہئے کہ آپ(نمائندہ) اتنی مرتبہ اپنے حلقہ سے کامیاب ہوئے ہیں آپ نے علاقہ کی عوام کیلئے انکی اجتماعی بہتری کیلئے کیا گیا ہے۔ عوام کو بھی انفرادی فوائد کی بجائے اجتماعی مسائل کے حل کا مطالبہ کرنا چاہئے جب اجتمائی مسائل کا حل نکلیگا تو انفرادی مسائل حل ہونا شروع ہونگے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسلام آباد کے پہاڑی علائقہ کے ایک گائوں گوکینہ چوکی کے ایک جیالے جس نے ضیاء الحق کی مارشل لا میں قیدوبند کے ساتھ کوڑے بھی کھائے تھے اس جیالے کا نام اقبال تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید اس وقت حیات تھیں اور حیات تھیں وہ جب اس گائوں میں آئیں تو لوگوں نے ذکر کیا کہ ہمارے گائوں میں آپ کی جماعت کا ایک جیالا بھی رہتا ہے جس نے جیلوں کے علاوہ کوڑے بھی برداشت کئے ہیں تو محترمہ نے فرمایا کہ اسے بلائو تو اقبال کو محترمہ کے سامنے لایا گیا تو بیروزگارہوں تو محترمہ نے کہا کتنی تعلیم ہے تو اقبال نے کہا بارہ جماعت پاس ہوں۔ تو محترمہ نے کہا کون سی ملازمت کرنا چاہو گے کسٹم میں پولیس میں یا کوئی اور ملازمت تو اقبال نے کہا کہ مجھے ملازمت نہیں چاہئے گائوں اور اسلام آباد کے درمیان سڑک انتہائی خراب ہے بیماروں کو چارپائی پر لیکر جانا پڑتا ہے لوگوں کو بڑی تکلیف ہے۔ محترمہ حیران بھی ہوئی اور خوش ہوئیں کہ میرے جیالے میں اجتماعی تکلیف کا احساس ہے انہوں نے وہاں بیٹھے بیٹھے اس سڑک کی مرمت کیلئے دو کروڑ روپے وزیراعظم فنڈ میں سے منظور کردیے اور اپنے ساتھ آنے والے چیئرمینCDA(کیپٹل ڈیلوپمنٹ اتھارٹی) کو حکم دیا کہ تین ماہ میں یہ سڑک مکمل طور پر رواں دیکھنا چاہتی ہوں دو کروڑ میں نے دے دیئے ہیں باقی دیکر کام مکمل کروائے اور اس کام کو آپ ذاتی طور پر اپنی نگرانی میں مکمل کرائیں۔ اور وہ کام مطلوبہ وقت میں مکمل ہوگیا۔ اب اقبال(جیالا) اپنے گائوں کا ہیرو بن گیا۔ وہ چاہتا تو اچھی سے اچھی ملازمت لیکر اپنا اچھا سا گھر بنوا لیتا لیکن اس نے سارے گائوں کو سڑک کی سہولت دلوا کر عزت اور محبت کمائی۔ عوام میں ایسے کو کینہ چوکی جیسے اقبال اگر پیدا ہوجائیں تو پاکستان خوب ترقی کریگا۔ جو عزت اقبال نے گائوں کی سڑک بنوا کر حاصل کی وہ کوئی بنگلہ یا گاڑی نہیں دلوا سکتی۔ کارکردگی اور آئندہ کیلئے انکا مستقبل دیکھیں اسی میں عوام کی بھلائی ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here