قارئین! آج کالم کی تحریر کے لئے دل بہت رنجیدہ ہے،اس لئے کہ پشاور کی پولیس لائن کی مسجد میں شہید ہونے والے 100 سے زیادہ نمازیوں کی کسمپرسی ، مسجد میں آہ و بکا، خون ریزی اور پسماندگان کے نالہ و گریہ نے عجیب سی کیفیت طاری کر دی ہے۔دل مٹھی میں آرہا ہے ، ہاتھ کانپ رہے ہیں، دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔ میری وہ مظلوم قوم کہ جو پونی صدی سے ڈکٹیٹرز، بدعنوانوں ، راشیوں اور جابروں کے مظالم سہہ سہہ کر ادھ موئی ( نیم مردہ)ہو کر بسمل کی طرح تڑپ رہی ہے۔اسے دہشت گردوں نے پھر سے مارنا شروع کر رکھا ہے۔بچپن میں ایک مشہور مثل سنی تھی کہ مرے ہوئے کو کیا مارنا؟ آج ایسے ہی لگ رہا ہے کہ مرے ہوئے کو مارا جا رہا ہے۔چند دن پہلے راقم الحروف نے اپنے کئی ایک کالموں میں لکھا تھا کہ مملکت خداداد میں پھر سے 80 کی دہائی والے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں۔قوم قائد کے افراد کی جب ٹارگٹ کلنگ ہو رہی تھی تو پاکستان بننے کے مخالفین کی اولادیں بغلیں بجا رہی تھیں۔جب انفرادی طور پر ہماری مائیں بہنیں ، بیٹیاں اپنے شہدا کو رو رہی تھیں اور اپنے مسنگ پرسنز پیاروں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔تو ایسے میں غیر مرئی طاقتیں طالبان اور ان کے حامیوں کو لوریاں دے رہی تھیں۔ 80 ہزار سے زائد شہدا کے قاتلو ں کو مذکرات کی دعوتیں دے رہی تھیں۔ پاکستان کو افغانستان بنانے کی خواہش رکھنے والوں کے دفاتر کھولے جا رہے تھے۔ دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں کو آشیربادیں دی جا رہی تھیں۔جیلیں توڑ کراپنے دہشت گردوں کو بھگانے والوں کو سیف پیسجز دئیے جا رہے تھے۔ارباب اقتداد ہمیشہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، ذلیل کرنے، مقدمات میں پھنسانے،خزانوں کو لوٹنے ، رعب و دبدبہ قائم کرنے، این آر اوز لینے دینے،ہارس ٹریڈنگ، ضمیر بیچنے ،خریدنے،اور چادر و چاردیواری کی حرمت پامال کرنے میں مشہور رہے ہیں ۔ اکثر سیاست دان ایک کرکٹ مافیا ہیں ۔ آج ملک جس چوراہے پہ کھڑا ہے یہ ملک و قوم کے لئے خطرے کا آلارم ہے۔کرنسی دن بدن گر رہی ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے، رشوت اور بد عنوانی عروج پر ہے، جعل سازی اور تذلیل انسانیت تحت السری تک پہنچ چکی ہے۔نالے اور چیخیں عرش علی تک جا رہی ہیں۔ اللہ کے جن گھروں میں مشکل وقت میں پناہ لینی ہوتی ہے ان میں خو ن کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔مسجدوں، نمازیوں اور قرآنوں پر بم مارے جا رہے ہیں۔ہر مذہب کے رہنما کہا کرتے تھے۔ جنگ و جدل اور دہشت و وحشت کے وقت عبادت گاہوں میں سائرن اور گھنٹے بجائے جائیں، دعائیں کی جائیں، پناہیں مانگی جائیں۔مغربی ممالک میں جب کوئی غیر قانونی پناہ گزین بھی کسی عبادت گاہ میں پناہ لے لیتا ہے تو اسے کچھ نہیں کہا جاتاجبکہ اسلام کے نام پر قائم کئے گئے واحد ملک میں الٰہی پناہ گاہیں بھی ٹارگٹ پر ہیں۔ امریکہ میں مسجدیں محفوظ ہیں اور اسلامی ملک میں مسجدیں ہائی رسک پر ہیں ۔ جب تک ہمارے ارباب حل و عقدایک دوسرے کو نیچا دکھانے، ہراساں کرنے ، لوٹ مار، رشوت بدعنوانی، ضمیر و خمیر فروشی نہیں روکیں گے۔ ملک میں امن قائم نہیں ہو سکے گا۔عسکری جماعتوں پر عملی پابندی لگانی ہوگی۔ملک کو اسلحہ سے پاک کرنا ہوگا۔مخالفین کو جعلی مقدمات میں پھنسانے کی روش کو ختم کرنا ہوگا۔بجلی پانی ،گیس اور بنیادی ضرورت کی اشیا کو سستا کرنا ہوگا۔وزرا کی فوج ظفر موج کو کم کرنا ہوگا۔ بیوروکریسی، ٹیکنوکریسی اور افسر شاہی کی عیش و عشرت کو سادگی میں بدلنا ہوگا۔انتظامیہ مقننہ اور عدلیہ کو برطانوی قانون کو ختم کرنا ہوگا۔تکفیری جماعتوں، فرقہ پرستوں دہشت گردوں اور ہارڈ لائینرز کو ٹھکانے لگانا ہوگا۔سزاں پر عملدآمد کرانا ہوگا ۔ امن پسند شہریوں کو جبری اغوا کر کے عقوبت خانوں میں ٹارچر کی بجائے قاتلوں، ڈاکوئوں، چوروں، لٹیروں اور غداروں کو سر عام سزائیں دینی ہونگی ۔ ایجنسیوں کو سارا زور دہشت گردی کے خاتمہ پر لگانا ہوگا۔اگر ارباب اقتدار ،بیوروکریٹ اور ٹیکنو کریٹ اپنی پیشہ وارانہ مجبوریوں کے باعث ملک کی مثبت خدمت سے قاصر ہوں تو پاک فوج اور عدلیہ اپنا مثبت رول ادا کرے نیز عوام اپنا دبا،انتظامیہ کے خلاف استعمال کرے۔ اللہ سے امید کی جاتی ہے کہ بنیادی وسائل سے محروم مظلوم پاکستانی عوام کو جن کی کمر مہنگائی اور بے انصافی نے توڑ رکھی ہے جلد امن و سکون کی سحر کو دکھائیگا ۔ کالم کے اختتام پر ایک آپ بیتی کا ضمنا ذکر کر رہا ہوں کہ ہمارے علاقے میں جو خاندانی دشمنیاں ہوتی تھیں ۔ان کے باعث ہماری مائیں کہتی تھیں کہ جب لڑائی ہو رہی ہو تو مسجد میں پناہ لے لو۔آج اسی پناہ گاہ سے جنازے اٹھ رہے ہیں۔تو معصومانہ سوال تو بنتا ہے کہ اب پناہ کہاں لی جائے ؟
ہر پاکستانی پناہ گاہ تلاش کر رہا ہے
٭٭٭