پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی عدالتوں کے لئے ایک فقرہ اجنبی ہوتا تھا کہ دونوں طرف سے دلائل مکمل ہو گئے ہیں اور عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ کسی بھی قوم پر جب زوال آتا ہے تو سب سے پہلے اس کے منصفوں سے اللہ آزاد اور غیر جانبدارانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت سلب کر لیتا ہے۔ پاکستان میں اس زوال کا آغاز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس منیر سے ہوا۔ اس کے پہلے فیصلے میں اس کے ساتھ جسٹس اے ایس ایم اکرم، جسٹس محمد شریف اور جسٹس ایس اے رحمن بھی شامل تھے جبکہ جسٹس کارنیلیس نے اس سے اختلاف کیا تھا۔ ایک سویلین گورنر جنرل غلام محمد نے اکتوبر 1954 میں دستور ساز اسمبلی توڑی اور اس کے اقدام کو جائز قرار دیتے ہوئے ان ذہین ججوں نے نظریہ ضرورت ایجاد کیا۔ غلام محمد نے یہ فیصلہ ایسے ماحول میں کیا تھا جب دو جرنیل اس کے ساتھ کھڑے تھے اور وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کو اس نیم پاگل غلام محمد کے پاس لایا گیا اور اس نے اسمبلی توڑنے کا فیصلہ مسلط کر دیا۔ مگر ٹھیک تین سال بعد جب فیلڈ مارشل ایوب خان نے سکندر مرزا کے ساتھ مل کر مارشل لا لگایا تو اسی چیف جسٹس منیر نے اپنے پیش کئے گئے نظریہ ضرورت سے بھی آگے بڑھ کر ایک اور تصور پیش کیا کہ فاتح انقلاب جائز ہوتا ہے یعنی جو طاقت سے اقتدار پر قبضہ کرے وہ بذاتِ خود قانون بن جاتا ہے۔ آپ کی حیرانی کی انتہا نہ رہے گی کہ ایک سویلین گورنر جنرل غلام محمد والے فیصلے میں جسٹس کارنیلیس نے اختلافی نوٹ لکھا تھا مگر 27 اکتوبر 1958 والے مارشل لا والے فیصلے میں وہ کارنیلیس بھی چیف جسٹس منیر، جسٹس شہاب الدین اور جسٹس امیر الدین احمد کے ساتھ برابر کا شریک ہو گیا۔ جرنیلی اقدامات کے روبرو اس کا قلم بھی کانپنے لگا۔ مدتوں یہ زوال صرف اعلیٰ عدالتوں اور وہ بھی صرف اور صرف سیاسی فیصلوں تک محدود رہا۔ ماتحت عدالتوں میں جب بھی معاملہ عام شہریوں کے درمیان ہوتا تو اکثر انصاف کا بھرم رکھا جاتا۔ سرکار اور عوام کے مابین مقدموں میں عموما ججوں کا تھوڑا سا جھکائو سرکار کی طرف نظر آتا، لیکن پھر بھی فیصلے میں ناانصافی بہت کم دیکھنے کو ملتی۔ چینی کہاوت کہ مچھلی اپنے سر سے سڑنے کا آغاز کرتی ہے کے مصداق انصاف میں جس ڈنڈی مارنے کا آغاز چیف جسٹس آف پاکستان منیر نے کیا تھا اس کی سرانڈ آہستہ آہستہ نیچے تک پہنچنے لگی۔ لیکن پھر بھی ایسے جج انگلیوں پر گنے جاتے تھے جو مقدموں میں جانبداری دکھاتے تھے اور ایسے وکیل بھی بہت کم تھے جو عدالتوں کے لئے رشوت ستانی کے پہیئے کا کردار ادا کرتے۔ آج سے چھتیس سال قبل 1986 میں جب میں ایک انتہائی قابل اور ایمان دار سیشن جج کوئٹہ چوہدری اسلم کی عدالت میں جوڈیشل ٹریننگ کر رہا تھا تو انہوں نے ایک بات بہت زور دے کر سمجھائی کہ دیکھو مقدمے کا فیصلہ بحث کے اختتام پر فورا کر دینا، کیونکہ اتنی لمبی کارروائی کے بعد آپ کسی ایک نتیجے پر ضرور پہنچ جاتے ہو۔ جو جج فیصلہ محفوظ کرتا ہے تو سمجھو اس کی نیت میں فتور آ چکا ہے۔ فیصلہ محفوظ کرنے کا فیشن اعلیٰ عدالتوں میں بھی بہت دیر کے بعد آیا۔ جس کی وہ یہ دلیل دیا کرتے تھے کہ ہم پر مقدمات کا بوجھ بہت زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے فیصلہ تحریر کرنے میں دیر لگ جاتی ہے، اس لئے ہم فیصلہ محفوظ کر لیتے ہیں۔ یہ جواز بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ آپ مقدمے کے اختتام پر فیصلہ سنا دیں تاکہ لوگ جاں کنی کی حالت سے باہر نکلیں اور تفصیلی فیصلہ بعد میں لکھتے رہیں۔ مثلا اگر آپ نے کسی ملزم کو بری کرنا ہے اور آپ اس نتیجے پر یکم تاریخ کو پہنچ چکے ہیں، لیکن آپ فیصلہ محفوظ کر لیتے ہیں اور تیس تاریخ کو سناتے ہیں تو پھر اس شخص کے تیس دن کی جیل کی زندگی کا جواب آپ سے دنیا میں تو کوئی نہیں مانگ سکتا، البتہ اللہ کے دربار میں آپ کو اس کے جواب کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ زوال کا عالم یہ ہے کہ اب یہ فیشن ماتحت عدلیہ یعنی مجسٹریٹ لیول تک بھی آ گیا ہے۔ یہاں تک کہ ضمانت اور ریمانڈ جیسے معاملے میں کہ جہاں صرف ایک لائن کا فیصلہ درکار ہوتا ہے، اس میں بھی یہ رویہ دکھایا جانے لگا ہے۔ صرف تیس سال میں ہمارا یہ حال ہو جائے گا کہ وہ رویہ جو کبھی جسٹس منیر اور کارنیلیس کا تھا، شاید اب مجسٹریٹوں اور سول ججوں تک بھی آ پہنچا ہے۔ ظفر اللہ جمالی جب وزیر اعلی بنا تو میں کوئٹہ میں اسسٹنٹ کمشنر اور سب ڈویژنل مجسٹریٹ تھا۔ سیٹلائٹ ٹائون کے بس اڈے پر فیروز لہڑی (بلوچ) اور وہاب پیر علی زئی (پشتون) ٹرانسپورٹروں میں تصادم ہوا اور حالات خراب ہو گئے۔ دفعہ 144 لگا کر پولیس کو مجمع ختم کرنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے کئی سو افراد کو گرفتار کر لیا۔ ڈپٹی کمشنر یونس جعفر نے مجھے کہا کہ ان کی ضمانتیں نہ لیں۔ میں نے کہا کہ میں دیکھ کر فیصلہ کروں گا کیونکہ پولیس تو اکثر بے گناہ راہ گیروں کو بھی پکڑ لیتی ہے اور یہ ایک قابلِ ضمانت جرم ہے جس میں ضمانت ملزم کا حق ہے۔ میں نے ان میں سے بیشتر کی ضمانتیں لے لیں، ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر نے مجھے انتظامی سربراہ کے طور پر شوکاز نوٹس جاری کیا کہ میری حکم عدولی کیوں کی۔ میں نے جواب لکھا کہ آپ ایسا کر کے عدالت پر اثرانداز ہوئے ہیں اور میں آپ کے خلاف اعلی عدلیہ میں توہینِ عدالت کی درخواست دے سکتا ہوں۔ یہ ایک بہت بڑا قدم ہو سکتا تھا جس پر کوئٹہ کے کئی وکلا خصوصا احسان ایڈووکیٹ نے بیچ بچائو کرا دیا لیکن اس کے بعد یونس جعفر نے میرے ساتھ کوئی انتقامی کارروائی نہ کی، بلکہ ہمیشہ ان کا مجھ سے تعلق دوستانہ ہی رہا۔ اسی طرح میں نے ایک کیس میں ضمانت لی۔ اس ملزم کی ضمانت ہائی کورٹ میں مسترد ہو چکی تھی۔ اس وقت نیب کے سابقہ چیئرمین جسٹس جاوید اقبال رجسٹرار تھے۔ انہوں نے مجھے عدالتِ عالیہ کی ناراضگی پہنچائی اور ساتھ ہی فائل بھی منگوا لی۔ جسٹس عبدالقدیر چوہدری چیف جسٹس تھے۔ میں ان سے چیمبر میں ملا، اور بتایا کہ جب صفحہ مثل پر نئی شہادتیں آ جائیں تو پھر ماتحت عدالت فیصلے میں آزاد ہوتی ہے۔ میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے کہا یہی صحیح رویہ ہے کہ آپ فیصلہ کرتے وقت قانون کو دیکھیں اعلی عدلیہ کے ججوں کے فیصلے سے مرعوب نہ ہوں۔ یہ صرف 34 سال پہلے کی کہانی ہے۔ لیکن پھر ہمارے سامنے ہی زوال شروع ہو گیا۔ ایک بے خوفی چھا گئی اور ماتحت عدالتوں کے غلط فیصلوں پر سرزنش کا تقریبا خاتمہ ہو گیا۔ میری اپنی نوکری میں آخری عدالتی ذمہ داری ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ چاغی کی تھی۔ یہ ایٹمی دھماکے کا 1998 تھا۔ ایک ملیشیا چیک پوسٹ پر ایک کیپٹن اور کچھ اہلکاروں نے بلاوجہ ایک مسافر بس پر فائرنگ کر دی تو ڈرائیور بس بھگا کر ایک بڑی حویلی میں جا گھسا۔ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے میں نے ان اہلکاروں پر بلا وجہ فائرنگ کرنے کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا۔ میرے اس فیصلے کا مضحکہ اڑانے کے لئے کمانڈنٹ ملیشیا کرنل نیازی، اس کیپٹن اور دیگر اہلکاروں کو ساتھ لے کر بازار میں گھومنے لگا۔ میں نے اس پر ملزموں کی اعانت کی دفعات لگانے کا حکم دے دیا۔ معاملہ انتہائی سنجیدہ ہو گیا۔ اختر مینگل وزیر اعلی اس معاملے پر بوجوہ خاموش تھا کیونکہ بلوچ عوام ملیشیا کے رویے سے نالاں تھے۔ اتنے میں وزیر اعظم نواز شریف چاغی میں سیندک کے دورے پر آیا، کور کمانڈر اور آئی جی ایف سی جنرل نیازی بھی ہمراہ تھے۔ میں نے سیندک پر استقبال کیا، مجھے کمانڈنٹ چاغی ملیشیا کرنل خالد نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر میں تمہاری خوب شکایت لگائی گئی اور اسے عزت بے عزتی کا مسئلہ قرار دے دیا گیا۔ رخصت ہوتے وقت نواز شریف نے مجھے ہاتھ ملاتے ہوئے خاص طور پر کہا او کے ڈی سی صاحب اور اس کے واپس پہنچتے ہی مجھے او ایس ڈی بنانے کے آرڈر جاری کر دیئے گئے تھے۔ اس کے بعد میں نے اٹھارہ سال نوکری کی، لیکن پھر مجھے کسی ایسے عہدے پر کبھی نہیں لگایا گیا جہاں میرے پاس ایسا عدالتی یا انتظامی اختیار ہوتا۔ میرے بارے میں یہ فیصلہ اسی دن کر لیا گیا تھا لیکن سنایا نہیں گیا اور یہ فیصلہ آج تک محفوظ ہے۔
٭٭٭