صدر ٹرمپ زیلینسکی پر برس پڑے!!!

0
123
حیدر علی
حیدر علی

یہ ایک ڈرامہ ہی تھا جس کے اہم کردار صدر امریکا ڈونلڈ ٹرمپ تھے، اِسلئے میں نے پاکستانی ڈرامہ کے چینلوں کو خیر باد کہہ کر صدر امریکا یا رامبو والے کردار کے شو کو دیکھنے کو ترجیح دی۔ کم از کم اُن کی تقریر میں کچھ خوشخبری تھی، صدر امریکا ڈونلڈ ٹرمپ جلد ہی سوشل سکیورٹی وصول کرنے والوں کو اُس پر ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنیٰ قرار دے دینگے، اب لوگ اُس ہزار ڈالر سے میامی یا ٹمپا بے جا کر رنگ رلیاں مناسکتے ہیں یا نہیں تو پاکستان جاکر نہاری اور چکن بریانی کھا سکتے ہیں۔ اِس سے چند دِن قبل ہی میں نے اُن کی گفتگو یوکرین کے صدر زیلینسکی کے ساتھ سنی تھی . مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ صدر ٹرمپ بس ایک پنچ دے ماریں گے اور اُس دھکم دھکا میں اُن کا نائب صدر جے ڈی وانس بھی شامل ہوجائیگا لیکن اُنہوں نے زیلینسکی کو اپنی باتوں ہی سے ڈرا دیا تھا، وہ شیر کی طرح گرجتے ہوے صدر زیلنسکی کو کہہ رہے تھے کہ ” آپ ملینز لوگوں کی زندگی سے جوا کھیل رہے ہیں. آپ تیسری جنگ عظیم سے جوا کھیل رہے ہیں. آپ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ ہمارے ملک کیلئے بہت توہین آمیز ہے، میں یہ چاہتا ہوں کہ امریکی شہریوں کو معلوم ہو کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے، آپ کو شکر گزار ہونا چاہیے کہ آپ کے پاس کوئی اور کارڈ نہیں ہے.آپ کے لوگ ہلاک ہورہے ہیں ، آپ کے ملک کو افرادی قوت کی کمی ہے، اور پھر آپ ہمیں کہتے ہیں کہ نہیں ہمیں جنگ بندی نہیں چاہیے ، ہمیں جنگ بندی نہیں چاہیے،میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو فورا”جنگ بندی قبول کرلینی چاہیے تاکہ بلٹ جو فضا میں میں بکھر رہی ہیں وہ ختم ہوجائیں اور آپ کے لوگ مزید ہلاک نہ ہوں، یہ سب کچھ میری وجہ کر نہیں ہوا۔ یہ سب کچھ اُس شخص کی وجہ کر ہوا جس کا نام جو بائیڈن ہے جو ایک اسمارٹ شخص نہیں ہے، یہ اوبامہ کی وجہ کر ہوا ہے، معاف کیجئے گا اوبامہ کی وجہ کر اوبامہ نے آپ کو کفن دیا اور میں نے برچھی، ہر جگہ یہی کہا جارہا ہے کہ اوبامہ نے آپ کو شیٹس دیا اور میں نے برچھی،آپ کو زیادہ ہی شکر گزار ہونا چاہئے، مجھے آپ کو بتا دینا چاہیے کہ آپ کے پاس ہمارے لئے کوئی کارڈ نہیں ہے اور نہ ہی آپ ہمارے بغیر اپنا کارڈ استعمال کر سکتے ہیں” صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ ” اگر میں اِن دونوں کے شانہ بشانہ نہ ہوں تو یہ کبھی بھی کوئی سمجھوتہ کرنے کے اہل نہ ہونگے، آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں پیوٹن کے خلاف خرافات بکوں اور پھر کہوں کہ ہائے ولادیمیر ! ہم لوگ سمجھوتے کے بارے میں کتنی پیش رفت کی ہے؟مسئلہ اِس طریقے سے حل نہیں ہوتا ہے،میں پیوٹن کے شانہ بشانہ نہیں ہوں، میں کسی کے بھی شانہ بشانہ نہیں ہوں، میں صرف امریکا اور دنیا کے مفاد کی خاطر شانہ بشانہ کھڑا ہوں، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ زیلینسکی پیوٹن سے کتنی حد تک نفرت کرتے ہیں، یہ میرے لئے ناممکن ہے کہ میں آگ کے اِس بھڑکتے ہوئے شعلے میں کوئی سمجھوتہ کرواسکوں،زیلینسکی شدید نفرت میں گرفتار ہیں جس کا مجھے علم ہے، لیکن میں یہ بتاتا چلوں کہ اِن کے مخالف بھی کوئی اِن سے محبت نہیں کرتے ہیں، اِس لئے سوال کسی کے شانہ بشانہ نہیں رہنے کا ہے، میں شانہ بشانہ ہوں صرف دنیا کے اور مجھے ہونا چاہیے، میں شانہ بشانہ ہوں یورپ کے . میں حالات کو درست کرنا چاہتا ہوں. کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں سخت ہوجاؤں، میں اتنا زیادہ سخت ہوسکتا ہوں کہ دنیا کا کوئی بھی شخص نہیں ہوا ہوگا.لیکن مسئلہ اِس سے حل نہیں ہوگا ”
یوکرین کے صدر ولودو میر زیلینسکی بھی حقائق کو درست کرنے کیلئے اپنی زبان کھولنے پر مجبورہوگئے تھے اور کہا تھاکہ” پیوٹن سال 2013 ء سے یوکرین کے ایک بڑے مشرقی حصے جس میں کرایمیا بھی شامل ہے قابض ہیں، اِس دوران کئی امریکی صدور جن میں اُبامہ پھر صدر ٹرمپ اور پھر صدر بائیڈن اور خدا بھلا کرے صدر ٹرمپ کا لیکن پیوٹن اُس وقت سے قابض ہیںاور کوئی بھی اُنہیں نکال نہیں سکا ہے، اُنہوں نے پیش قدمی کی اور ہمارے لوگوں کو ہلاک کیا اور ہماری زمین پر قابض ہوگئے۔
اِس دوران نائب صدر جے ڈی وانس نے مداخلت کرتے ہوے کہا کہ ” میں اِس سوال کا جواب دونگا. دیکھئے چار سال تک امریکا میں ایک ایسا صدر رہا جو پریس کانفرنسوں کے دوران کھڑا ہوجاتا تھا اور ولادیمیر پیوٹن کے بارے میں بکواس کرنا شروع کردیتا تھا. جوابا”پیوٹن نے یوکرین پر حملہ کردیا اور ملک کے ایک بڑے حصے کو تباہ و برباد کردیا.امن و خوشحالی اُس وقت نمو ہوتی ہے جب مسائل کو سفارتی کاروائی کے ذریعہ حل کیا جاتا ہے،ہم جو بائیڈن کے نقش قدم پر چلتے رہے اور اپنے سینے کو پھُلا کر یہ باور کراتے رہے کہ امریکی صدر کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ اُس کے عمل سے زیادہ مقدم ہوتے ہیں ،امریکا ایک اچھا ملک اُس وقت تصور کیا جاتا ہے کیونکہ وہ ہر مسئلے کو سفارتکاری کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کرتا ہے،
صدر ٹرمپ بھی اِسی راہ پر گامزن ہیں”زیلینسکی صدر ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوے کہا کہ ” سال 2014 ء سے 2022 تک حالات جوں کے توں رہے. سرحد پر جنگ ہوتی رہی اور لوگ ہلاک ہوتے رہے۔آپ کی اطلاع کیلئے ہم نے وقتا”فوقتا”پیوٹن سے تبادلہ خیال کیا ، سمجھوتے پر دستخط کئے ، ہم لوگوں نے جنگ بندی کی اور اُس کے شرائط پر دستخط کئے. ہم لوگوں نے پیوٹن سے گیس کا معاہدہ کیا لیکن چند عرصہ بعد ہی پیوٹن نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی، اُنہوں نے ہمارے لوگوں کو ہلاک کیا اور جنگی قیدی کے تبادلہ کا جو معاہدہ ہوا تھا اُس کی بھی دھجیاں اُڑادیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here