فاشنرم فتنہ و فساد! !!

0
32
پیر مکرم الحق

فاشنرمFASCISMرومن زبان کے لفظFASCISMسے ابھرا ہے جو قدیم روم میں مجسٹریٹ(قاضی) کی طاقت کے نشان کے طور پر قاضی، مجسٹریٹ یا جج کی طاقت کے اظہار کی نشانی تھی۔ اسکی حیثیت دراصل سلاخوں کے بنڈل سے اُبھرتی ہوئی کلہاڑی کی صورت میں سامنے آئی تھی اس ہتھیار کو گردن زدنی کے لئے بھی استعمال کیا جاتا تھا جب منصف کسی کو پھانسی کی سزا سناتا تھا تو پھر اسی کلہاڑی سے اسکا سر قلم کیا جاتا تھاپھر آگے چل کر روم کے لوگوں نے مسولینی کی آمریت کا بھی مشاہدہ کیا اور پھر اس نظام حکومت کو فاشنرم کا چہرہ قرار دیا گیا۔ ہٹلر اور مسولینی دونوں اتحادی تھے اور انہوں نے بے دریغ جھوٹے وعدے اور تسلیاں دیکر عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنے پیچھے لگا دیا۔ انکی تقاریر سننے کیلئے عوام جوق درجوق ہزاروں کی تعداد میں جھلے آتے تھے۔ ان کو چاہنے والے اپنے رہنمائوں کو ایک دیوتا کی طرح سمجھتے تھے۔ انکی پرستش کرتے تھے انکا ہر حکم انکے لئے آخری بات ہوتا تھا۔جب مسولینی اٹلی سے جرمنی ہٹلر سے ملنے آئے تو انہیں بڑا زعم تھا اپنی مقبولیت پر اور وہ ہٹلر سے کہنے لگے کہ میں اگر چاہوں تو اپنی عوام سے کچھ بھی منولو اور وہ میری بات کو کبھی رد نہیں کرتے۔ہٹلر کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی اور کہنے لگا بس یہ تو کوئی بات نہیں میں تمہیں بتانوں ہوں اور دکھاتا ہوں کہ لوگ عمل ”اپنی جان میرے ایک حکم پر کیسے لٹاتے ہیں! پھر اپنی حفاظت پر معمور گارڈز کے ایک گروپ کو بلا کر اس نے حکم دیا کہ کھڑکی کی طرف رخ کرکے مارچ کو اور جب تک رکھنے کا نہیں کہوں نہیں رکنا ہے۔ یہ سارے لوگ اس وقت ہٹلر کے دفتر کے دسویں منزل پر موجود تھے پچاس لوگوں پر مشتمل گارڈ دستہ کو ہٹلر نے مارچ کا حکم دیا وہ مارچ کرنے لگے اور ان کا رخ دسویں منزل میں واقعہ کھڑکی کی طرف تھی۔ گارڈ چلتے رہے اور کھڑکی سے کود کر مرتے رہے لیکن رکے نہیں اور مرتے رہے کیونکہ انہیں حکم تھا کہ جب تک روکا نہ جائے رکنا نہیں۔اس طرح جب وہ سارے گارڈ دسویں منزل سے جھلانگیں لگا کر مر گئے تو مسولینی نے ہٹلر کی طاقت کو تسلیم کیا۔ انکی طرز حکومت میں ایک قبر مشترکہ تھی کہ انہوں نے حکومت میں آتے ہی عدالتوں پر اپنا تسلط قائم کیا تاکہ عدالتیں انکی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔ فاشسٹ رہنمائوں کی عوام میں بیحد مقبولیت کے علاوہ چند نشانیاں مندرجہ ذیل میں دی جاتی ہیں۔1۔یہ رہنما نہ کسی سے مشورہ لیتے ہیں نہ کسی کی سنتے ہیں۔2۔ یہ رہنما اپنے کو عقل کل سمجھتے ہیں۔3جھوٹ کو اقتدار حاصل کرنے کیلئے اور پھر اقتدادر میں رہنے کیلئے ایک اوزار سمجھتے اور استعمال کرتے ہیں۔4۔ یہ لوگ انتہائی درجہ کے خود پسند اور انا پرست ہوتے ہیں۔ 5۔ یہ لوگ اندرونی طور پر غیر محفوظINSECAREہوتے ہیں جسکی وجہ سے یہ لوگ بیک وقت احساس کمتری اور احساس برتری کا شکار ہوتے ہیں(جوکہ صحتمند ماہرین نفسیات کے مطابق ایک ہی بات ہوتا ہے) یہ لوگ انتہائی ظالم اور بے رحم ہوتے ہیں اپنے مقاصد کے حصول کیلئے انسانی جانوں کو ایندھن کی طرح استعمال کرتے ہیں۔7۔ فاشسٹ اگر اپنے ہاتھوں سے اقتدار کو کھسکتے دیکھیں تو یہ ایسے نظام کو آگ لگانے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ غور سے مطالعہ کرنے پر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دونوں حکمرانوں یعنی ہٹلر اور مسولینی میں یہ علامات نہ صرف100فیصد موجود تھیں بلکہ مشترکہ بھی تھیں۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ دونوں فاشسٹ حکمرانوں کا انجام بھی سبق آموز او ردرد ناک طریقہ پر ہوا۔ ہٹلر نے اپنی محبوبہ کو قتل کررکے خود اپنی جان لے لی اور مسولینی کو روم کی عوام نے پکڑ کر سرعام پھانسی دیدی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ جو حکمران لاکھوں کے مجمع سے خطاب کرتے تھے۔ تو لوگ اتنے غور سے سنتے تھے کہ کسی سوئی کے گرنے کی آواز بھی نہیں آتی تھی، وہی لوگ کس بیدردی سے اپنے انجام کو پہنچے۔ ان ظالموں کا انجام اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ جھوٹ اور ظلم بے انصافی پر مبنی حکمرانوں کا انجام خراب یہی ہوتا ہے۔
پاکستان میں عمران خان کی شخصیت، طرزعمل اور تکبر میں فاشنرم کی جھلک واضع نذر آتی ہے۔ انکے دور حکومت کا جائزہ لیں تو مخالفین کو حقیر اور برا بھلا کہنے کے علاوہ جھوٹے مقدمات اور ججوں پر دبائو ڈال کر بلیک میل کرکے ان پر مظالم ڈھانا اور اپنے خلاف مقدمات کو ختم کروانا۔ اپنے ناقدین پر ظلم کرنا، صحافیوں پر قاتلانہ حملہ کروانا۔ ان پر کسی تنقید کو برداشت نہیں کرنا۔ چاہے وہ انکی اپنی سیاسی جماعت کے لوگ بھی ہوں۔ اکبر ایس بابر جو تحریک انصاف کی تشکیل سے عمران خان کے ساتھ ہی صاف ستھری ساکھ رکھنے والا سیاسی کارکن اور تحریک انصاف کا بنیادی رکن ہے۔ کئی سال پہلے جب انہوں نے پارٹی فنڈنگ کی آڈٹ کا مطالبہ کیا اور ناجائز بیرونی فنڈنگ(فارنگ فنڈنگ) پر اعتراض کیا تب سے اس پر دھمکیاں اور مقدمہ اور کچھ نہیں ہوا تو اپنے دور حکومت میں انکے گھر کی دیوار گرانے کیلئےCDAکی کرین تک انکے گھر پر بھیج دی۔ بحریہ کے بدنام مالک ملک ریاض کی منی لانڈرنگ کے تانے بانے بھی منی لانڈرنگ سے جاملتے ہیں۔190ملین برطانوی پائونڈ کی خطیر رقم2019میں حکومت پاکستان کو واپس ملی اور پھر فرح گوگی کو ذریعہ بنا کر ملک ریاض سے ایک ڈیل بنائی گئی اور پھر برطانوی حکومت سے واپس کی ہوئی رقم کا ایک خصہ ملک ریاض کو دیا گیا اور ساتھ ارب پاکستانی روپے القادر ٹرسٹ کے ذریعے ہتھیا لی گئی جس کے ٹرسٹی عمران خان، بشرہ بیگم اور زلفی بخاری ہیں۔ اس رقم کیلئے ایک بند لفافہ کے ذریعے کابینہ سے منظوری لی گئی ۔
ساٹھ ارب کی خطیر رقم سیل بند لفاظہ کے پرپوزل کے ذریعے منظور کرانے کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ دوسروں پر الزام لگانے والے عمران کے اپنے کرتوت کیا ہیں۔ عدالتوں کا سامنا کرنے سے انکاری ملزم کو پولیس گھر سے گرفتار کرنے جاتی ہے تو پولیس پر پیٹرول بم پھینکے جاتے رہے۔ اب جب رینجر نے بائیومیٹرک کے کمرہ سے گرفتار کیا پروقار اعظم کا بنایا ہوا گھر جلا دیا۔ پشاور کا ریڈیو اسٹیشن جلا ڈالا اور شہدا کی یادگار اور مجسمہ کو آگ لگا دی پھر بھی محب وطن ہونے کا دعویٰ؟۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here