رمضان المبارک کے تیسریعشرہ کی آخری ساعتیں ہیں ۔ اللہ رب العزت نے اس عشرہ کو دوزخ سے آزادی کا عشرہ قرار دیا ۔اس عشرہ میں لیلہ القدر ہے۔ جو ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔اسی آخری عشرہ میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔جس کا مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کے قانون کا نفاذ تھا۔پچہتر برس گزرنے کے بعد بھی ھم نظام کا تعین نہیں کر سکے۔ اللہ کی زمین پر قانون اور حاکمیت بھی اسی کی ھونی چاہئے تھی۔ ہر حکمران نے ذاتی خواہشات کے مطابق اس ملک پر حکمرانی کی۔ چور ، ڈاکو اور ایماندار خان ۔سبھی کوتوشہ خانہ نے ننگا کردیا۔جو کہتا تھا اللہ نے مجھے سب کچھ دے دیا ہے ۔ اس سے بھی توشہ خانہ مخفوظ نہ رہا۔ ان سب نے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے غریب کے چولہے ٹھنڈے کئے،ملک آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک اور دوسرے بین الاقوامی اداروں کے آگے گروی ہے۔چند خاندان اس ملک کی تخت نشینی پر براجمان ہیں ۔ ملی دولت لوٹ کر لنڈن، امریکہ ، پیرس اور سویٹزر لینڈ محلات تعمیر کرنے والے غیروں کی ایجنٹ ہم پر مسلط ہیں۔ ملک سیاسی،معاشی اور اقتصادی اور آئینی بحران کا شکار ہے۔اور یہ بحران دن بدن بڑھ رہا ہے۔ 40 رکنی کابینہ نے خلف اٹھا لئا ہے جن میں 26 وزیر ضمانت پر ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلی پنجاب خمزہ شریف بھی ضمانت پر ہیں۔ فوج کو گالیاں دینے والا وزیر دفاع ہیروئن کے کیس میں ضمانت یافتہ وزیرِداخلہ۔ یہی وہ کریمنلز ہیں جو ھمارے سسٹم پرسوال ہیں۔ انکے لئے عدالتیں آدھی رات کھلتی ہیں۔ لیکن عام عوام کو تین نسلوں تک انہی عدالتوں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں۔عدالتیں مکمل طور پر فیل ہو چکی ہیں۔یہ اشرافیہ کی راکھیل ہیں۔ غریب کی تین نسلیں انصاف کے حصول میں اللہ کو پیاری ہو جاتی ہیں۔ ان عدالتوں کو بارود کا ڈھیر بنا دینا چاہئے۔ پاکستان کا سیاستدان منافق، جھوٹا اور کرپٹ ھے۔پاکستان کا جج منافق، کرپٹ اور بے ایمان ھے۔پاکستان کا جرنیل اور اسٹبلشمنٹ طبقہ منافق،آئین پاکستان کا دشمن اور کرپٹ ہے۔پاکستان کا میڈیا جھوٹا،منافق اور دو نمبر ہے۔پاکستانی کورٹس کو کرپٹ ججز سمیت آگ لگا دینی چاہیے۔ جو غریب کو انصاف نہ دیسکیں ،چوروں کے لئے رات کو کھل جائیں۔ اس بے توقیر اور لوٹا پارلیمنٹ کوممبران سمیت اڑا دینا چاہئے۔ایکبار پرانے ڈاکو، پرانا گند صاف ہونا چاہئے۔بار بار پرانے چوروں کو اقتدار میں لا کر فوج دلالی کا کام بند کرئے۔ جرائم پیشہ افراد کو اقتدار سونپ دیا گیا ہے ۔ حکومت بنتے ہی لوٹ مار شروع۔ چوہتر ارکان اسمبلی اور شریف فیملی کا پورا ٹبر فری عمرہ کے لئے حجاز مقدس روانہ ھو چکے ہیں۔ آئی ایس پی آر نیجن پر پاکستان دشمنی اور غیر ملکی ایجنڈے پر کام کا الزام لگایا موجودہ حکومت ان کا نام ای سی ایل سے نکال دیا ہے۔ شہباز شریف ستاسی ارکان کو عمرہ پر لے جارہے ہیں۔ ھمیں تنبیہ ہے کہ جیسی عوام ویسے حکمران۔ہر ادارہ کرپٹ، عدالتیں اور جنرل برائے فروخت،۔ ھم کم تولنے، ملاوٹ کرنے ، دھوکہ دینے، بے انصافی کرنے اور کمزور اور غریب کا مال لوٹنے میں ماہر ہیں ۔جو ہم نے اپنے حکمرانوں سے سیکھا ہے مریم کا کہنا تھا کہ بلاول اسٹبلشمنٹ کا نیا لے پالک بچہ ھے۔ بلاول کہتے تھے کہ ھمیں معلوم ہے کہ مریم کی رگوں میں کس کا خون ہے۔اور نواز شریف ضیاالحق کا بیٹا ہے۔
زرداری کا کہنا تھا کہ نواز شریف گریٹر پنجاب بنانا چاہتے ہیں۔ اور اسکو پانچ ججوں نے کرپٹ اور نااہل قرار دیا۔
آج یہ مجرمین اکٹھے ہیں۔ نہ کسی کا پیٹ پھٹا اور نہ کسی کو لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔
عوام کو مہنگائی کی سڑک پر گھسیٹا جا رہا ہے۔جو اس پتلی تماشہ کو برسوں سے دیکھتے آرہے ہیں۔
گزشتہ دہائی یہ سمجھنیکے لیے کافی ہے کہ زرداری عمران اور نوازشریف میں سے ہر ایک حکومت ملنے کے بعد کم و بیش ایک ہی جیسی کارکردگی دکھاتا ہے اور ایک جیسی فرعونی نفسیات کا حامل بن جاتا ہے، نکالے جانے پر ایک ہی طرح تڑپتا بلکتا اور شور مچاتا ہے اور اپنے بعد ملک و قوم کا مستقبل بھی تاریک سمجھتا ہے۔
گویاگزشتہ دہائی یہ ثابت کر چکی کہ یہ تینوں افراد نااہلوں کا ایک ٹولہ ہیں ۔جسکا ایک ممبر دیگر ممبران سے نسبتا خوش شکل لیکن پرفیشنلی زیادہ نکما ہے۔ عوام پریشان ھے ایسی بے غرض جمہوریت سے ۔ خمزہ کو وزیراعلی بنانے کے لئے گورنر نہیں مان رہا۔گورنر کو ہٹانے کے لئے صدر نہئں مان رہا۔ اور صدر کو ہٹانے کے لئے پی ڈی ایم کے پاس 296 ووٹ نہئں۔
گزشتہ دہائی کے دوران یہ بھی ثابت ہوا ہے ان تینوں افراد کے پاس تھوڑے تھوڑے فرق سے ایک ہی جتنے غلام شیدائی ہیں جو انکے ایک اشارے پر کاروبار سلطنت بند کر دینے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔
انکے اپنے شیدائیوں کے علاوہ ہر دوسرا شہری انکے نکمے پن کے باعث انسے بدترین نفرت کرتا ہے، اپنی فطری نااہلی کو چھپانے کے لیے بوقتِ ضرورت ان میں سے کوئی لسانیت یا قومیت کے پیچھے چھپتا ہے، کوئی فوج کے خلاف عوام میں پائے جذبات کے پیچھے، کوئی امریکہ کے خلاف قوم میں موجود عوامی جذبات کے پیچھے۔ پی ٹی آئی کے کارکن بھی پٹوریوں اور جیالوں کیطرح اندھی تقلید کے قائل ہیں۔عمران پر تنقید کرنے کا مقصد چوروں اور ڈاکوں کی تعریف نہیں۔ یوتھیے شخصیت پرستی میں اندھے نہ ہو جائیں ۔ کہ انہیں دین سے دنیا تک عمران ہی نظر آئیں ۔
جسے موقع ملے وہ شانِ رسول میں کسی اندرونی ،بیرونی یا انفرادی گستاخی کے خلاف جذبات کو اپنے اقتدار کی سیڑھی بنا لیتا ہے۔ ان تینوں پارٹیوں میں ایک جیسے اندھے بہرے فالوورز پائے ہیں جو اپنے اپنے رہنما کو غلطیوں سے پاک الہامی لیڈر اور اسکے مخالفین کو شیاطین مانتے ہیں۔
حقائق تو یہی ہیں لیکن آپ نے بہرحال معاشرے میں رہنا ہے ان میں سے جسے مناسب سمجھیں سپورٹ کر کے گروہی تحفظ کا احساس یقینی بناتے رہیں۔
بالآخر مجرم نواز شریف کو پاسپورٹ جاری کردیا گیا ۔ جس کی بیسیوں بیماری ان یک دم ٹیک ھو چکی ہیں۔ایک مجرم کو ڈپلومیٹک پاسپورٹ جاری کرنے کے خلاف درخواست گزار کو ہائیکورٹ کیطرف سے پانچ ہزار جرمانہ اور درخواست خارج کردی گئی ۔
یعنی بدمعاشیہ کے خلاف آپ کورٹ میں کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ کورٹ برائے فروخت ہے۔پاکستان میں کورٹس مجرموں کی جائے پناہ ہیں۔پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور پی ٹی آئی میں بیٹھے کریمنلز اور چھوٹے گروپس کے بلیک میلرز نے جمہوریت کو ہائی جیک کر لیا ہے۔
ملک کی آبادی ایک محتاط اندازے کی مطابق بائیس کڑوڑ ہے۔
پی ٹی آئی کا دعوی ہے کہ بائیس کڑوڑ عوام اسکے ساتھ ھیں۔ پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا بھی یہ دعوی ھے کہ بائیس کڑوڑ عوام انکے ساتھ ہیں۔میراان بڑی جماعتوں سے سوال ہے کہ ۔ پورے پاکستان میں تیس سے چالیس فیصد ووٹ کاسٹ ہوتے ہیں۔ تقریبا آٹھ کڑوڑ لوگ مختلف جماعتوں کو ووٹ ڈالتے ہیں ۔ لیکن تین بڑی جماعتیں ۔پی ٹی آئی ،پیپلز پارٹی اور ن لیگ، بائیس کڑوڑ عوام کی نمائیندگی کادعوی کرتے ہیں۔
جمہوریت میں چند کریمنلز خاندانوں کی غلامی ھے۔پہلے نواز شریف وزیراعظم تھا ۔ شہباز شریف وزیراعلی تھا۔اب شہباز شریف وزیراعظم ہے اور بیٹا خمزہ شہباز وزیراعلی۔مریم نواز ،اسکا بیٹا جنید بھی پر تول رہے ہیں۔ اسی طرح بھٹو تھا، پھر بیٹی ، پھر اسکا شوہر ،آئندہ بلاول اور اسکی بہنیں تیار ہیں ۔
ق لیگ چوہدری، اب انکی اولاد ، اے این پی باچا خاندان اور انکی اولاد۔
جمیعت علما اسلام مفتی محمود، انکا بیٹا فضل الرحمن اور اب انکا بیٹا اسد۔ یہ اب جماعتیں ماروثی سیاست کی قائل ہیں۔
یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ان جماعتوں کی سربراہی پارٹی کارکنان کو ملیں۔ یاجیلں بھرنے یا ماریں کھانے والے کارکنان کو ملیں۔ ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ جس میں اقربا پروری اور خاندان ہی نظر آئے۔ کارکنان کو کوئی مرکزی عہدہ نہ ملے۔
جماعت اسلامی اسی لئے اکھاڑ پچھاڑ کی سیاست سے الگ رہی۔ پاکستان میں جمہوریت فیل ہوچکی ہے موجودہ سسٹم میں چور ، ڈاکو اور لٹیرے اقتدار میں آجاتے ہیں ۔ اس نام نہاد جمہوریت کی جگہ متناسب نمائیندگی کے ذریعے انتحاب کو ممکن بنایا جائے۔ تاکہ لوگ باکردار اور محب وطن قیادت منتحب کر سکیں۔جماعت اسلامی نے کے قائد سراج الحق نے کہا ہے کہ متناسب نمائندگی کو ذریعہ انتخاب بنانا چاہئے جہاں افراد کی بجانے پارٹیوں کے منشور کو ووٹ ڈالا جائے تاکہ فاشسٹ نظریات اور گندگی سیاست کی جگہ صاف ستھری قیادت ملک کو میسر آسکے۔ جماعت اسلامی ایک بہترین آپشن ہے۔ اور جماعت اسلامی سیاسی افراتفری کے خلا کو پر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
٭٭٭