امریکہ کا خطے میں کردار ہمیشہ سے متنازع رہا ہے، اور اس کا مشرق وسطی میں اپنی موجودگی کے مقاصد بھی مختلف ہیں۔ امریکہ نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو حوثیوں کے خلاف حمایت فراہم کی ہے، جس کا مقصد صرف حوثی تحریک کو کمزور کرنا نہیں بلکہ ایران کے اثر و رسوخ کو روکنا ہے۔ امریکہ نے اپنے فوجی اثاثے اور انٹیلی جنس معلومات فراہم کرتے ہوئے سعودی عرب کی مدد کی، لیکن اس مداخلت نے خطے میں ایک انسانی بحران بھی جنم دیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے کی جانے والی فوجی کارروائیاں حوثی تحریک کے اثرات کو روکنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکیں۔ مشرق وسطی کی سیاست اور یہاں کے طاقتور کھلاڑیوں کے درمیان موجودہ تنازعات پر اگر گہرائی سے نظر ڈالی جائے تو ایک سوال سامنے آتا ہے کہ کیوں کچھ ممالک ہمیشہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی فوجی طاقت کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ دوسری طرف کچھ چھوٹے گروہ بھی عالمی طاقتوں کے لیے بڑا چیلنج بن جاتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں حوثی عسکریت پسندوں کی طاقت، امریکہ اور اسرائیل کے ردعمل، اور مسلم دنیا کی کمزوری ایک ایسا منظرنامہ تشکیل دے رہی ہیں جو نہ صرف مشرق وسطی کے استحکام کے لیے خطرہ بن چکا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک نیا عدم توازن پیدا کر رہا ہے۔یہ سوال اہم بن چکا ہے کہ کیا حوثی عسکریت پسندوں کی طاقت حماس اور حزب اللہ جیسے گروپوں سے زیادہ ہے؟ اور کیا امریکہ اور اسرائیل اس بڑھتے ہوئے خطرے کو ایک نیا ایڈونچر شروع کرنے کا جواز بنا رہے ہیں۔؟ حوثی تحریک کا ابھار ایک پیچیدہ اور گہری سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ یمن کے شمالی حصے میں 1990 کی دہائی میں ایک چھوٹے سے شیعہ فرقے، زیدیوں، نے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی، اور پھر وقت کے ساتھ یہ تحریک ایک مسلح گروہ میں بدل گئی۔ جب 2014 میں حوثی تحریک نے صنعا پر قبضہ کیا اور یمن کے بڑے حصوں پر اپنی حکمرانی قائم کی، تو یہ ایک ایسا لمحہ تھا جس نے سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک کے لیے نہ صرف داخلی، بلکہ عالمی سطح پر ایک سنگین مسئلہ پیدا کر دیا۔ سعودی عرب کوخدشہ تھا کہ ایران کی حمایت سے حوثی تحریک پورے خطے میں ایرانی اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حوثی تحریک کا ہدف صرف یمن کی حکومت کو گرانا نہیں تھا بلکہ انہوں نے علاقے میں ایک نئی طاقت کے طور پر اپنے آپ کو منوایا۔ 2000 کی دہائی کے بعد جب حوثیوں نے اپنے عسکری قوت کو بڑھایا، اور ایران کی حمایت حاصل کی، ان کے پاس اب جدید ہتھیار بھی ہیں۔ یہاں تک کہ سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک میں ہونے والے حملوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حوثیوں کی عسکری صلاحیت میں زبردست اضافہ ہو چکا ہے، حالانکہ ان کی عالمی سطح پر ایسی قوت نہیں ہے جیسے حزب اللہ یا حماس کو ایران کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ امریکی مداخلت کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام اور اس کے پراکسی گروپوں کو کمزور کرنا تھا، لیکن اس نے پورے خطے کو ایک بڑی جنگ میں تبدیل کر دیا۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ حوثی تحریک کو روکنے کے لیے کسی بڑے ایڈونچر کی تیاری کر رہا ہے؟ کیا یہ اس کا جواز ہے کہ اسرائیل کو تحفظ دینے کے نام پر اس خطے میں ایک نئی پراکسی جنگ کی صورت میں مداخلت کی جائے؟ امریکہ اور اسرائیل کا خیال یہ ہو سکتا ہے کہ حوثی تحریک اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات پورے خطے میں اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، اور اس لیے انہیں روکنے کے لیے مزید اقدامات ضروری ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے لیے کیوں یہ مسئلہ اتنا سنگین بن چکا ہے؟ کیوں اسرائیل اور امریکہ کسی بھی غیر ریاستی اداکار کے محدود حملے کو اپنے حق میں ایک بڑی کارروائی کرنے کا جواز بناتے ہیں؟ حوثی عسکریت پسندوں کا اسرائیل کے خلاف براہ راست حملہ ممکن نہیں تھا ، لیکن حالیہ دنوں اسرائیلی علاقوں میں میزائل داغے گئے، لیکن ان کے محدود حملے، اسرائیل اور امریکہ کے لیے ایک جواز فراہم کرتے ہیں کہ وہ اس کے جواب میں طاقتور کارروائی کریں، اور اس کا اثر ان بے گناہ عوام پر پڑتا ہے جو پہلے ہی جنگ اور بحران کا شکار ہیں۔ یہاں پر ایک حقیقت یہ ہے کہ جب بھی ان گروپوں کے ذریعے حملے ہوتے ہیں، اسرائیل اور امریکہ اپنے طاقت کے استعمال کو ایک جائز ردعمل کے طور پر پیش کرتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں معصوم بچوں اور عورتوں سمیت ہزاروں لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں، عالمی طاقتیں اس بات کا فائدہ اٹھاتی ہیں کہ وہ اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے غیر متناسب طاقت استعمال کریں۔ مسلم اکثریتی ممالک کی موجودہ حالت ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ داخلی تقسیمات، حکومتی کمزوریاں، فرقہ وارانہ اختلافات، اور عالمی سطح پر مشترکہ حکمت عملی کی کمی ہے۔ یہ تمام عوامل عالمی طاقتوں کے لیے ایک موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنی حکمت عملی کے مطابق مسلم اکثریتی ممالک میں مداخلت کریں اور ان کی کمزوری کا فائدہ اٹھائیں۔ امریکہ، اسرائیل جیسے ممالک اس صورتحال کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں، اور یہ کمزوری خطے میں مزید عدم استحکام پیدا کر رہی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ اس کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور اس کے جواب میں طاقتور کارروائیاں کر رہے ہیں۔ دوسری طرف، مسلم امہ کی اندرونی کمزوریوں نے عالمی طاقتوں کو ایک ایسا موقع فراہم کیا ہے جس سے وہ اپنے مفادات کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ صورتحال تب تک برقرار رہے گی جب تک مسلم ممالک اپنی داخلی تقسیمات کو ختم نہیں کرتے اور ایک مضبوط مشترکہ حکمت عملی اختیار نہیں کرتے۔ اگر مسلم ممالک نے اپنے داخلی اختلافات کو حل نہیں کیا، تو عالمی طاقتیں ان کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتی رہیں گی۔ عالمی سطح پر اس کا اثر نہ صرف مشرق وسطی بلکہ عالمی امن اور استحکام پر پڑے گا۔ مسلم دنیا کے اندرونی مسائل نے عالمی طاقتوں کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنے اثرات کو بڑھائیں اور ان گروپوں کے ذریعے جن کا کوئی مستحکم ریاستی نظام نہیں ہے، اپنی پالیسیوں کو نافذ کریں۔ جب تک مسلم ممالک اپنی داخلی مشکلات کو حل نہیں کرتے اور ایک مشترکہ حکمت عملی نہیں اپناتے، اس کمزوری کا فائدہ عالمی طاقتوں کو ملتا رہے گا۔ مشرق وسطی میں حوثی عسکریت پسندوں کی طاقت اور اس کے جواب میں امریکہ اور اسرائیل کا ردعمل ایک سنگین بحران کو جنم دے رہا ہے۔ حوثی تحریک نے اپنی عسکری صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے، اور ان کے حملے نہ صرف یمن دیگر حصوں تک پہنچ چکے ہیں۔
٭٭٭