بلوچستان: وسائل، محرومیاں اور نئی راہیں!!!

0
67

پاکستان کا سب سے بڑا، مگر سب سے کم ترقی یافتہ صوبہ بلوچستان ایک بار پھر قومی مکالمے کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔چند روز قبل ایک بار پھر پنجاب سے گئے مزدوروں کا قتل اوراس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ کوئٹہ میں دیے گئے بیانات اور اعلانات نے ایک بار پھر اس دیرینہ سوال کو زندہ کر دیا ہے کہ آیا بلوچستان کو واقعی اس کا جائز مقام اور حصہ دیا جا رہا ہے یا نہیں؟ وزیراعظم نے نہ صرف صوبے کی محرومیوں کا اعتراف کیا بلکہ متعدد ترقیاتی اقدامات اور مالی اشتراک کا وعدہ بھی کیا، جو خوش آئند ضرور ہے مگر زمینی حقائق کا بے لاگ جائزہ بھی ضروری ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ “اللہ تعالی نے باقی صوبوں کو بے پناہ وسائل دیے ہیں لیکن بلوچستان میں فاصلے زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے ترقیاتی عمل سست ہے، اس لیے اسے مزید وسائل درکار ہیں”۔ یہ بات بجا ہے کہ بلوچستان کی جغرافیائی وسعت، کم آبادی، اور پسماندہ انفراسٹرکچر ترقیاتی عمل کو مہنگا اور پیچیدہ بناتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف وسائل کی فراہمی سے یہ رکاوٹیں دور کی جا سکتی ہیں یا ان کے لیے جامع سیاسی، انتظامی اور سکیورٹی اصلاحات بھی لازم ہیں؟ وزیراعظم نے بجلی پر چلنے والے 28 ہزار زرعی ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا، جس پر 55 ارب روپے لاگت آئے گی۔ اس منصوبے کا 70 فیصد وفاق اور 30 فیصد بلوچستان حکومت برداشت کرے گی۔ یہ اقدام نہ صرف زرعی معیشت کو مستحکم کرے گا بلکہ توانائی کی قلت اور مہنگی بجلی کے مسائل کا حل بھی فراہم کرے گا۔ کسان کو خود کفالت ملے گی اور دیہی معیشت میں بہتری آئے گی۔ تاہم، اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ صرف مالی سرمایہ کاری سے نتائج حاصل نہیں ہوں گے، اگر انتظامی صلاحیت، نگرانی، اور شفافیت کو یقینی نہ بنایا گیا تو یہ منصوبہ بھی سابقہ منصوبوں کی طرح کاغذی رہ جائے گا۔ اسی طرح ایک ہزار ذہین طلبہ کو چین کی جامعات میں میرٹ کی بنیاد پر بھیجنے کا فیصلہ، بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے علم و آگہی کے دروازے کھولنے والا قدم ہو سکتا ہے۔ اگر یہ سکالرشپ سکیم شفاف، غیر سیاسی اور تسلسل سے جاری رہی تو یہ بلوچستان کی آئندہ نسل کی سوچ، ہنر اور نظریاتی محرومیوں میں کمی لا سکتی ہے۔ تاہم بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ صرف معاشی محرومی نہیں، بلکہ امن و امان کی مسلسل خراب صورت حال بھی ہے۔ حالیہ سکیورٹی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ چھ ماہ کے دوران بلوچستان میں دہشت گردی کے 501 واقعات پیش آئے، جن میں 257 افراد شہید اور 492 زخمی ہوئے۔ ان واقعات میں سکیورٹی فورسز، پولیس، لیویز اور شہری نشانہ بنے۔ یہ اعداد و شمار اس امر کی گواہی ہیں کہ بلوچستان اب بھی بھارت سمیت دشمن قوتوں کے پراکسی نیٹ ورکس اور مقامی سہولت کار گروہوں کے نشانے پر ہے۔ ان حملوں کا مقصد محض جانی نقصان نہیں بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے جغرافیائی خطے کو غیر مستحکم رکھنا ہے۔ دہشت گردی کی لہر نے بلوچستان میں جہاں ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی ہیں، وہیں عوام کا حکومت اور اس جے اداروں سے اعتماد بھی متاثر ہوا ہے۔ ایسے میں سیاسی قیادت کی جانب سے اس بات کا عزم کہ بلوچستان کو باقی صوبوں کے برابر ترقی کے مواقع دیے جائیں گے، محض دعوی نہیں بلکہ اس کی عملی شکل بھی سامنے آنی چاہیے۔ کیونکہ ماضی میں بھی ایسے کئی دعوے کیے گئے جو ارضی حقائق کے مطابق پورے نہ اتر سکے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جو بلوچستان اور پاکستان کی خیر خواہی چاہے گا ہم اسے گلے لگائیں گے۔ یہ الفاظ درست سمت کی علامت ہیں، لیکن یہ تب ہی موثر ہوں گے جب ریاست بلوچستان کے ہر طبقیخواہ وہ سردار ہو یا طالبعلم، مزدور ہو یا کسان،کو اعتماد میں لے کر ایسی پالیسی اختیار کرے جو مقامی شناخت، ثقافت اور وسائل کے تحفظ کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کا مظہر ہو۔اس سلسلے میں متعدد بار یہ مشورہ دیا جاتا رہا ہے کہ صوبے کی ثقافت، فنون لطیفہ اور علمی و ادبی اقدار کو قومی دھارے میں لانے کا انتظام کیا جائے، نئی رابطے استوار کئے جائیں، نئے مکالمہ کو فروغ دیا جائے۔ بلوچستان کی ترقی صرف وفاقی منصوبوں سے مشروط نہیں بلکہ اس کے لیے صوبائی خود مختاری، اختیارات کی منتقلی اور مقامی قیادت پر اعتماد کی فضا بھی پیدا کرنا ہو گی۔ آئین کے آرٹیکل 172(3) کے تحت قدرتی وسائل پر مقامی حق تسلیم کیا گیا ہے،شکایت ہے کہ عملی طور پر اکثر فیصلے مرکز میں بیٹھ کر کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح سی پیک جیسے بڑے منصوبوں میں بھی مقامی آبادی کو روزگار، تربیت اور شراکت کے مواقع کے متعلق شکایات ہیں تو ان کا ازالہ کیا جائے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان کی ترقی اور امن کو محض اعلانات اور فنڈز تک محدود نہ رکھا جائے، بلکہ دہشت گردی کے خلاف واضح اور مستقل حکمت عملی، مقامی حکومت کی صلاحیت سازی، نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت، احتساب اور عوامی شراکت کو اولین ترجیح دی جائے۔ عسکری قیادت کی قربانیاں اور سیاسی قیادت کے وعدے اگر ایک مربوط قومی بیانیے میں ڈھالے جائیں تو بلوچستان کو ایک پرامن، خوشحال اور باوقار مستقبل کی جانب گامزن کیا جا سکتا ہے۔ قومی سیاسی جماعتوں کو معیشت کی بحالی اور دفاع کے ساتھ بلوچستان کے معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے پر توجہ دینا چاہیے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here