لبنان آگے بڑھ رہا ہے۔ اگر ٹیکنو کریٹس وہاں جمہوریت کی راہیں کھول سکتے ہیں، تو شام میں بھی ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ اگر امیر عرب ممالک الشراع کیلئے صرف “ایک موقع” مانگتے ہیں تو وہ موقع شام میں جمہوریت کو کیوں نہ دیا جائے؟ اگر عالمی طاقتیں واقعی مشرق وسطی کی تشکیل نو چاہتی ہیں، تو انہیں سمجھنا ہو گا کہ صرف ایک جمہوری شام ہی مشرق وسطی کی نئی تشکیل کی ضمانت دے سکتی ہے۔ اگر وہ شام میں جمہوریت کو ناکام بناتے ہیں، تو آہستہ آہستہ شام ان کی پرتعیش دارالحکومتوں میں امن کے تمام منصوبے ناکام کر دے گا۔ خلیجی عرب مصنفین کی طرف سے یہ تجویز بھی سامنے آ چکی ہے کہ اگر اسرائیل جولان کی پہاڑیوں پر قبضہ برقرار رکھتا ہے تو طرابلس شام میں شامل کر دیا جائے۔ اسی طرح غریب یمنی عوام نے غزہ کے مسئلے پر اسرائیل کے خلاف خونریز جنگ لڑی، مگر امیر خلیجی ممالک خاموش رہے۔ خلیجی مصنفین کی طرف سے یمن کو تقسیم کرنے کی تجاویز بھی کافی عرصے سے زیر بحث ہیں۔جہاں تک خلیجی عرب ریاستوں کے مصنفین کی بات ہے، تو یہ اکثر حکومت یا سرکاری اداروں کے ترجمان ہوتے ہیں کیونکہ وہاں آزاد میڈیا کا کوئی تصور نہیں۔ قطر کے سوا، خلیجی اخبارات میں کام کرنے والے پاکستانی صحافی نہ پاکستان کی سیاست پر تنقید کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے میزبان ممالک پر۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ قطر شاید وہ پہلا خلیجی ملک تھا جس نے عمران خان کی حکومت کے خاتمے پر جمع ہونے والے ہجوم کے خلاف کارروائی کی۔ دوحہ میں ان کے حمایتی آج بھی سوشل میڈیا پہ پاکستانی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہیں، مگر قطر پر ایک لفظ بھی نہیں بولتے۔اگر ہم تھوڑا پیچھے جائیں تو نظر آتا ہے کہ امیر خلیجی ممالک نے اس اتحاد کا ساتھ دیا جس نے عراق تباہ کیا اور صدام حکومت کا خاتمہ کیا۔ لیبیا کا بھی یہی حال ہوا۔ حکومت کے خاتمے کے بعد یہ دونوں عرب ممالک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ عراق شاید تھوڑا سنبھل جائے، لیکن لیبیا مسلسل بکھر رہا ہے۔ اس منزل پہ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ عرب ممالک کی توڑ پھوڑ اور نئے ممالک کی تشکیل ایک منظم منصوبہ ہے، اور امیر خلیجی ریاستیں اس منصوبے کی شراکت دار ہیں۔ اگر ہم اس پیٹرن کو سمجھ لیں تو یہ جان جائیں گے کہ یہ سلسلہ نیتن یاہو کی لیکود پارٹی کے حکومت بنانے سے پہلے شروع ہو چکا تھا۔ اس لیے نیتن یاہو کے مشرق وسطی کو دوبارہ تشکیل دینے کی بات محض ایک ناقص تجزیہ ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ عرب ممالک پر حملے امیر عرب بادشاہوں کو کیوں راس آتے ہیں، کیونکہ یہ ایک تاریخی بحث ہے جو ہمیں اصل موضوع سے دور لے جائے گی۔ اصل سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے شام پر ایک نسبتا ہلکے حملے پر سب اتنے شور کیوں کر رہے ہیں۔ شام کا حکمران ایک ایسا شخص ہے جسے “شام کا قصائیِ” کہا جاتا تھا اور ہے۔ ترکی ہمیشہ سے یو اے ای، سعودی عرب یا GCC سے متصادم راستہ اختیار کرتا رہا ہے، مگر شام کے معاملے پر صدر اردوان، سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یاد رہے کہ محمد بن سلمان کے بعد، اردوان دوسرے عالمی رہنما تھے جن سے شام کے خود ساختہ صدر الشراع نے ملاقات کی۔ اردوان، محمد بن سلمان اور محمد بن زاید نہایت مختلف مگر شام کے معاملے میں متحد شراکت دار ہیں۔ مختصرا، سب لوگ غزہ کے لہو سے سیراب مشرق وسطی کی نئی تشکیل چاہتے ہیں۔ نیتن یاہو بھی یہی چاھتا ہے۔ وہ اسرائیل سے عراق تک کے سرحدی علاقوں پر قبضے کا خواہاں ہے۔ سبھی اس خونی کھیل سے اپنا حصہ چاہتے ہیں۔ متعدد اختلافات کے باوجود، اردوان اس وقت ریاض کے شاہی محل کے اس کنرے میں ٹنگی ٹی وی اسکرین پر تھے، جہاں محمد بن سلمان نے الشراع کو ٹرمپ کے سامنے ایک میز پر بٹھادیا تھا۔ ان سب نے شام سے پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا تاکہ الشراع ثابت کر سکے کہ وہ اس ملک کے لیے موزوں حکمران ہیں۔تقریبا ہر سفارتکار، سرکاری نمائندہ اور رائے ساز خلیجی دنیا میں بارہا کہتا رہا کہ الشراع کو ایک موقع دیا جائے، باوجود اس کے کہ وہ شام کو جوڑنے میں ناکام رہے۔ دروز اقلیت ان کی اولین ہدف نہیں، انہوں نے پہلے علویوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں پر بھی ظلم کیا۔ اگرچہ امیر عرب ممالک اور GCC نے شام میں اربوں ڈالر جھونکے اور عالمی کمپنیاں ان کے ساتھ معاہدے کر رہی ہیں، الشراع نے شامی عوام کو ایک ایک پیسے کے لیے ترسا دیا۔ اسرائیلی حملے ہر لحاظ سے قابل مذمت ہیں، مگر الشراع ایک ناکام حکمران ہے، اور شام کو ایک ایسی جمہوری حکومت کی ضرورت ہے جو اس کی تنوع، شدت اور عوامی توقعات کی نمائندگی کرے۔
٭٭٭













