اوقاف: پائیدار ترقی کاخالص اسلامی تصور !!!

0
52

رفاہِ عامہ کے مختلف پراجیکٹس کی Sustainability کیلئے وقف یا Endowment کا قیام، ایک خالص اسلامی تصور ہے جسے مغربی دنیا نے بھی بہت مہارت سے پروان چڑھایا ہے۔ امریکہ میں رہتے ہوئے اندازہ ہوا کہ بڑی بڑی یونیورسٹیاں، ہسپتال اور تھنک ٹینکس کے اپنے اپنے اوقاف کے سسٹم چل رہے ہیں جسے حکومت بہت توجہ سے ریگولیٹ کرتی ہے اور کسی بھی فرد یا ادارے کو ان سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانے دیتی۔ پاکستان میں اوقاف کی دیکھ بھال کیلئے، حکومتِ پاکستان کے تحت دو بڑے ادارے قائم ہیں جو ایک طرف تو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی وقف املاک کی حفاظت کرتے ہیں اور دوسری طرف ہندوں اور سکھوں کی وقف شدہ املاک کی نگرانی فرماتے ہیں۔ یہ سارا ذکر آج اس لئے کر رہا ہوں کہ ہندوں اور سکھوں کے اوقاف کی نگرانی کے ذمہ دار ادارہ کے تحت اسلام آباد میں واقع Evacuee Trust Board Building میں ہی ہم آجکل زکواة فانڈیشن آف امریکہ کا کنٹری آفس بنا رہے ہیں۔ اس بلڈنگ کے کرائے سے چونکہ رفاہی اداروں کو ہی فائدہ ہوتا ہے، اس لئے ہم نے اس جگہ کو باقی آپشنز پر ترجیح دی ہے۔نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد آج جب آفس رینوویشن کا جائزہ لینے کیلئے وہاں پہنچے تو اندازہ ہوا کہ بڑی محنت اور جانفشانی سے کام جاری ہے۔ ان شااللہ، پانچ ہزار مربع فٹ پر واقع یہ آفس، پاکستان میں ہمارے بہت سارے پراجیکٹس کو تکمیل تک پہنچانے میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔ اسی دورے کے دوران، متروکہ وقف املاک کے اہل کاروں کے ذریعے بورڈ کے دائرہ کار اور اس کے بہت سارے کاموں سے آگاہی حاصل ہوئی۔ حیرت ہوئی کہ پاک و ہند کے کشیدہ تعلقات کے باوجود بھی پاکستان کے لوگ اقلیتوں کی وقف شدہ املاک کی بھرپور حفاظت کر رہے ہیں اور ہندوستان کے لوگ بھی باقاعدگی سے اپنی متروکہ املاک کی دیکھ بھال میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔وقف کے اس اسلامی تصور کی وجہ سے ہی امتِ مسلمہ کے بڑے بڑے ادارے صدیوں سے قائم و دائم چلے آ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں تقریبا ہر مسجد کے ساتھ چند دکانیں بھی وقف کے طور پر بنا کر کرائے پر چڑھا دی جاتی تھیں۔ اس کرائے کی آمدن سے مسجد کے بہت سارے اخراجات ادا ہوجاتے تھے۔ اسلام آباد میں ہمارے خاص میزبان، برادر فضل الرحمان نے حال ہی میں اپنی پی ایچ ڈی کا تھیسز اوقاف کے موضوع پر ہی تحریر کیا ہے۔ انہوں نے اپنی ریسرچ کے بہت سارے حقائق کل شئیر کئے تو اندازہ ہوا کہ Sustainable Development کیلئے اوقاف کا تصور بیحد ضروری ہے۔پاکستان کے اس ٹرپ کے اہداف میں ایک تو اسلام آباد کے اس کنٹری آفس کی تکمیل شامل ہے۔ اس کے بعد صوبہ سندھ میں سیلاب زدگان کیلئے بننے والے مزید گھروں کا افتتاح ہوگا۔ ایک سو مزید گھر جن کا سروے مکمل ہو چکا ہے، ان کی تعمیر کا آغاز کرنے کا پروگرام بھی اس ٹرپ کے اہداف میں شامل ہے۔ لاہور میں بننے والے ہیومینٹی اسپتال کے ڈیزائن اور اس کی ڈرائنگز کی متعلقہ اداروں سے منظوری کا مشکل کام بھی اسی تگ و دو کا حصہ ہے۔ آہستہ رفتار کے باوجود ہم اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔ تاخیر ہو بھی رہی ہے تو وجہ تاخیر بھی موجود ہے۔ بہرحال، ہوتا تو صرف وہی ہے جو ہمارا رب چاہتا ہے۔ ہم اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔زکوا فانڈیشن آف امریکہ، اقوامِ متحدہ کا بھی حصہ ہے۔ آجکل UN کی ساری گفتگوں کا محور SDGs یعنی Sustainable Development Goals رہتے ہیں۔ پائیدار ترقی کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اوقاف کے نظام کو مظبوط و بہتر نہ بنا لیا جائے۔ بہت سے ڈیولیپنگ ممالک کا بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ اپنے عدالتی نظام کی کمزوری کے باعث ترقیاتی پراجیکٹس کی حفاظت نہیں کر پاتے اور پائیدار ترقی ایک خواب ہی رہتی ہے۔ماڈرن ماحولیات سے بہت پہلے اسلامی تعلیمات میں درخت لگانے کی انتہائی زیادہ ترغیب موجود تھی۔ ایک نسل کے لگائے ہوئے درختوں کے پھل تو اگلی نسل کو مہیا ہوتے تھے لیکن پھر بھی اچھے انسان بڑی بے لویثی سے یہ کام کرتے تھے۔ شجرکاری کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے بھی ہوتا ہے جس میں رسول اللہ نے فرمایا: اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں درخت ہو اور وہ اس بات پر قادر ہو کہ قیامت قائم ہونے سے پہلے وہ اسے لگا لے گا تو ضرور لگائے۔ (مسند احمد)
مشہور شاعر باقی صدیقی صاحب نے دیکھئے کیا نقشہ کھینچا ہے۔
دیوانہ اپنے آپ سے تھا بے خبر تو کیا
کانٹوں میں ایک راہ بنا کر چلا گیا
باقی، ابھی یہ کون تھا موجِ صبا کے ساتھ
صحرا میں اک درخت لگا کر چلا گیا
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here