بڑی کامیابی ،پاکستان ماہرین کا کررونا کا علاج دریافت کرنے کا دعویٰ

0
210

نیویارک (پاکستان نیوز) پاکستانی ماہرین نے کورونا کے علاج کیلئے دوا تیار کرنے کا دعویٰ کردیا ، یہ دوا صحت یاب مریضوں کے جسم سے حاصل شفاف اینٹی باڈیزسے تیار کی گئی، ماہرین نے کورونا بحران میں گلوبیولن کی تیاری کو امید کی کرن قرار دیا ہے۔ ڈاو¿ یونیورسٹی کی ریسرچ ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ کورونا کے صحتیاب مریضوں کے خون سے حاصل شدہ اینٹی باڈیز سے انٹرا وینیس امیونو گلوبیولن( آئی وی آئی جی ) تیار کرلی جس کے ذریعے کورونا متاثرین کا علاج کیا جاسکے گا۔ڈاو¿ کالج آف بائیو ٹیکنا لوجی کے پرنسپل پروفیسر شوکت علی کی سربراہی میں ریسرچ ٹیم نے دنیا میں پہلی مرتبہ کورونا کے علاج کےلیے امیونوگلوبیولن کاموثر طریقہ اختیار کرنے کی تیاری مکمل کرلی ہے، ریسرچ ٹیم سربراہ پروفیسر شوکت علی نے کورونا بحران میں گلوبیولن کی تیاری کو امید کی کرن قرار دیا ہے۔وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں اسے ایک انتہائی اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا صحت یاب مریضوں کے جسم سے حاصل شفاف اینٹی باڈیزسےگلوبیولن تیار کی ،ماہرین نے تیار گلوبیولن کی ٹیسٹنگ اور اینمل سیفٹی ٹرائل بھی کامیابی سے کیا۔پروفیسر سعید قریشی کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس میں علاج کیلئے تیار کی گئی دوا کو کورونا کے شدید بیمار مریضوں کو استعمال کیا جاسکے گا، اس دوا کا جانوروں پر علاج کا کامیاب تجربہ کرچکے ہیں اور انسانوں پر دوا کے استعمال کی اجازت کیلئے درخواست دیدی ہے، اجازت ملنے کےبعد کمرشل تیاری کی جائے گی اور علاج میں 2سے3ہفتے لگیں گے۔ڈاو¿ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر کی زیرنگرانی کام کرنے والی ٹیم نے محنت کے بعد ہائپر امیو نو گلوبیولن( آئی وی آئی جی تیار کی ، ٹیم نے ابتدائی طور پرمارچ 2020 میں خون کے نمونے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی بعد ازاں اس کے پلازمہ سے اینٹی باڈیزکو کیمیائی طور پر الگ تھلگ کرنے ، صاف شفاف کرنے اور بعد میں الٹرا فلٹر تکنیک کے ذریعے ان اینٹی باڈیز کو مرتکز کرنے میں کامیاب ہوئی، اس طریقے میں اینٹی باڈیز سے باقی ناپسندیدہ مواد جن میں بعض وائرس اور بیکٹیریا بھی شامل ہیں انہیں ایک طرف کرکے حتمی پروڈکٹ یعنی ہائپر امیونوگلوبیولن تیار کرلی جاتی ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا میں پہلی مرتبہ پاکستان میں کورونا سے صحت یاب مریض کے خون سے یہ امیونوگلوبیولن تیار کی گئی ہے ، جو کورونا بحران میں امید کی کرن تصور کی جارہی ہے۔ان ماہرین کے مطابق یہ طریقہ غیرمتحرک مامونیت(پے سو امیونائزیشن) کی ہی ایک قسم ہے مگر اس میں مکمل پلازمہ استعمال کرنے کے بجائے اسے شفاف کرکے صرف اینٹی باڈیز ہی لیے جاتے ہیں اس محفوظ اورموثر طریقہ کار کو اس سے پہلے بھی بڑے پیمانے پر دنیا میں پھیلنے والے وبائی امراض سارس،مرس،اور ابیولا میں موثر طورپر استعمال کیا جا چکا ہے جبکہ تشنج،انفلوئنزا اور رےبیز کی شفاف اینٹی باڈیز دنیا میں تجارتی سطح پر فروخت کےلیے بھی دستیاب ہوتے ہیں۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here