فہمیدہ مسرت جرمنی میں مقیم ہیں، علامہ اقبال کی نسبت سے جرمنی ہمیں عزیز ہے۔علامہ اقبال نے جرمنی سے ایرانی فلسف ما بعدالطبیعات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ آپ کے نام سے جرمنی میں ایک شاہراہ بھی منسوب ہے۔فہمیدہ مسرت ممتاز شاعرہ ہیں۔ انہوں نے چند غزلیات ارسال کیں جن کا مطالعہ کرنے کے بعد دل نے گواہی دی کہ ان کا اردو ادب کا نہ صرف مطالعہ وسیع ہے بلکہ وہ زبان و بیان پر پختہ عبور بھی رکھتی ہیں۔ بنیادی طور پر آپ غزل کی شاعرہ ہیں اور غزل ہی اردو شاعری کے ماتھے کا جھومر ہے۔ آپ کے کلام میں رومانوی اشعار کے ساتھ ساتھ سماجی، روحانی اور انقلابی اشعار بہ کثرت ملتے ہیں جو ان کے عصری شعور کے آئینہ دار ہیں۔ جرمنی جیسے جمہوری ملک میں رہ کر افکار میں آزادی اور بے باکی ایک سماجی عنصر ہے جو آمرانہ نظام کے خلاف بغاوت ہے۔ آپ کی شاعری نہ صرف فغانِ دلِ سوختہ ہے بلکہ یہ نظامِ زور و ز کے خلاف صدائے احتجاج بھی ہے۔ دو شعر ملاحظہ ہوں
پہلے اطلس میں جو ملبوس کیے جاتے ہیں
پھر وہ ایوانوں میں محبوس کیے جاتے ہیں
میں اِنہیں حیط تحریر میں لائوں کیسے
درد لکھے نہیں، محسوس کیے جاتے ہیں
ہم عہدِ جدید میں رہتے ہیں۔ اب محبت یکطرفہ نہیں دو طرفہ ہے۔ جسے ہم شبنم سمجھتے ہیں اب وہ بھی شعلہ ہے۔اگرچہ آپ کی شاعری میں مشرقیت، نسائیت ، شرافت و نجابت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے لیکن وہ جذب محبت کو انسان کا فطر ی حق اور ضرورتِ دل سمجھتی ہیں۔ کہتی ہیں!
اب ڈر نہیں ہے کچھ بھی زمانہ کہے مجھے
لینا ہے تیرا نام سرِعام عشق میں
احمد فراز نے کہا تھا
تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اِتنے حجابوں میں ملیں
فہمیدہ مسرت بھی محبت کو ایک فطری جذبہ قرار دیتی ہیں اور اقرارِ محبت کی دلیل اور جواز یوں دیتی ہیں!
ذرا بتلا کب دعوی کیا ہم نے ملائک کا
بشر ہیں ہم تعجب کیا ہے گر تقصیر کرتے ہیں
آپ کی شاعری میں رومانوی جذبات بھی شدت سے ملتے ہیں۔ محبت زندگی کی اساس ہے ۔ بقولِ شاعر!
محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا
یوں محسوس ہوتا ہے کہ فہمیدہ مسرت کا ہر شعر پکار رہا ہے: میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ آپ حافظ شیرازی کی ہمنوا نظر آتی ہیں جس نے کہا تھا!
خلل پذیر بود ہر بنا کہ می بینی
بجز بنائے محبت کہ بے خلل است
آپ کو بہار میں بھی خزاں کا سماں اِس لیے نظر آتا ہے کہ دل میں موسمِ ہجراں ہو تو باہر کا موسم بے معنی ہوتا ہے۔ کہتی ہیں
کون کہتا ہے کہ گلشن میں بہار آئی ہے؟
غنچہ دل پہ قیامت کی گھٹا چھائی ہے
بس گیا میری نگاہوں میں کسی کا چہرہ
جرم آنکھوں نے کیا، دل نے سزا پائی ہے
آپ شعلہ و شبنم ہیں۔ آپ کے کلام میں اشکوں کی روانی و جولانی بھی ہے اور دلِ سوختہ کی آتش فشانی بھی ہے۔ جرمنی میں رہ کر نخلِ اردو کی خونِ دل سے آبیاری جوئے شیر لانے کے مترادف ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
٭٭٭