انسان کی زندگی میں معاشرت، تہذیب و تمدن کے حوالے سے محبت، عقیدت اور تعلق کے ایسے مراحل بھی آتے ہیں جب وہ ایسی شخصیات کی جدائی پر دکھ اور اندوہ کو اسی طرح محسوس کرتا ہے جیسے اس کا اپنا اس سے بچھڑ گیا ہو۔ حالانکہ جانے والے اس سے کوئی خون کا رشتہ یا بالذات تعلق نہ ہو۔ جدا ہونے والی یہ ہستیاں وہ ہوتی ہیں جو اپنے علم و عمل، تہذیب و تمدن اور کردار سے فرد ومعاشرے کا آئیڈیل ہوتی ہیں اور معاشرے کیلئے اثاثہ بنتی ہیں۔ گزشتہ جمعہ اور سوموار کو ایسی ہی دو ہستیاں ہم سے بچھڑ گئیں جن کی جدائی کا غم ہر پاکستانی کی طرح ہمیںبھی سوگوار کر گیا۔ 10 فروری کو استاد محترم، مصنف، ڈرامہ نویس و بیمثال شاعر 70 سے زائد تصانیف و شعری مجموعوں کے خالق امجد اسلام امجد حرکت قلب بند ہونے کے سبب دار فانی سے رخصت ہو گئے۔ ابھی قوم اس صدمے سے نکلی بھی نہ تھی کہ پیر کی صبح 13 فروری کو تہذیب و ثقافت، زبان و بیان کی شناخت، فلم و تمثیل کے شناور اور نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس(ناپا) کے بانی و سربراہ ضیاء محی الدین کی رحلت کی خبر نے ہر پاکستانی کے قلب کو جھنجوڑ دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔میرا ہر دو محترم شخصیات سے کوئی ذاتی تعلق یا رشتہ تو نہیں تھا تاہم ستارۂ امتیاز امجد اسلام سے اپنے دیرینہ رفیق افتی نسیم کے ناطے ان سے ملاقاتیں ضرور رہیں۔ مرحوم امجد اسلام جب بھی شکاگو آتے تو ان سے ملاقات رہتی تھی۔ وہ افتی مرحوم کے پاس ہی قیام کرتے اور ان دونوں علم و ادب کے ستاروں کے درمیان گفتگو میرے علم و آگہی میں بیش قیمت اضافہ کا سبب بنتی تھی۔ ہلال امتیاز ضیاء محی الدین سے میری کبھی ملاقات نہ ہوئی لیکن ان کا پروفائل، اردو زبان اور الفاظ کے استعمال پر عبور، ضیاء محی الدین شوو خطبات کے ناطے نیز ان کے ثقافتی سفر کے ناطے وہ میرے ہیرو اور رہنما ہی رہے۔ سچ یہ ہے کہ زمان و مکان، تعلق و رشتہ سے بالا تر ایسی ہستیاں جنہوں نے افراد و معاشروں کو اپنے مستحسن اطوار، افعال و کردار سے تطہیر و تکریم دی ہیں وہ اس فانی دنیا سے جانے کے بعد بھی زندہ و جاوید ہی رہتے ہیں۔ میرا پیارا وطن ایسی جلیل القدر ہستیوں کے حوالے سے مالا مال ہے جنہوں نے اپنے شعبوں میں گرانقدر خدمات سے نہ صڑف وطن عزیز کی تکریم و عزت کو بڑھایا ہے بلکہ دنیا سے جانے کے بعد بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں اور یہ حقیقت کسی ایک شعبہ تک ہی محدود نہیں۔ وقت کے دھارے کیساتھ نہ صرف ایسے شہپر ہم سے جُدا ہو رہے ہیں، کجکلائیہ زمانہ اور تیزی سے اثر انداز گلوبل معاشرتی و تہذیبی تبدیلیوں نے ہمیں ایسی اقدار و معاشرت سے دوچار کر دیا ہے جہاں ہر اقدام ذاتی مفاد، منفعت اور اغراض سے عبارت ہے۔ اس تبدیلیٔ حالات سے کوئی شعبہ بھی مستثنیٰ نہیں۔ سیاست، ریاست، ادب، ثقافت سے کھیل تک ہر جگہ ذات کی ترجیح و خود غرضی نے ترقی معکوس کو ہی جنم دیا ہے۔ کسی بھی ملک یا معاشرے کی نمو اور ترقی و تہذیب کا دارومدار اس کے اکابرین، رہنمائوں اور ذمہ داران کے افعال، بیانوں، سوچ اور عمل پر ہوتا ہے۔ اس میں اولین کردار ریاست، حکومت اور متعلقہ اداراتی رہنمائوں کا ہوتا ہے۔ ہمیں تو یہ وعید کی گئی ہے کہ جس قوم کے جیسے کردار ہوتے ہیں ویسے ہی اس کے حکمران مسلط ہوتے ہیں۔ وطن عزیز میں حالات کا جائزہ لیں تو اپنے دیس کے رہنمائوں کے کردار خصوصاً ہر شعبہ کے اکابرین کے افعال اس وعید کا ہی مظہر نظر آتے ہیں۔ سیاسی حکمرانوں، رہنمائوں، ریاستی انتظامی، کاروباری حتیٰ کہ ادبی، علمی ثقافتی و معاشرتی ذمہ داریوں کے روئیے، بیانیئے، عمل و زبان کا استعمال معاشرتی پستی سے بھرپور ہیں اور اس کا اثر یہ ہے کہ فرد سے پورے معاشرے تک جھوٹ، منافرت، تکرار، تضحیک اور بدگمانی کا دور دورہ ہے۔ ان حالات کی اولین ذمہ داری ان سیاسی رہنمائوں پر آتی ہے جو اپنے خود غرضانہ مقاصد، برتری و کسی بھی طرح سے اقتدار کے حصول کے ہر جائز و ناجائز حربے، طریقے کو آزماتے ہیں، مخالفین کی تضحیک و الزام تراشی سے معاشرے اور عوام میں نفرت، غلاظت و بیخ کنی کا زہر پھیلاتے ہیں۔ موجودہ حالات کو دیکھیں تو خود کو 22 کروڑ عوام کا نمائندہ کہنے والے ان سیاستدانوں نے نہ صرف معاشرے بلکہ گھر گھر میں نفرت و عناد کے بیج بو دیئے ہیں بلکہ معاشی تنزلی کے اس گہرے غار میں دھکیل دیا ہے جہاں دو وقت کی روٹی کھانا بھی عام آدمی کیلئے جوئے شیر لانا ہو گیا ہے۔ اپنے کرتوتوں کے باعث آئی ایم ایف اور بیرونی قوتوں کے غلامی کے طوق سجانے والے یہ سیاسی نام نہاد عوامی رہنما عوام و ملک کی بہتری کیلئے کچھ کرنے کے برعکس انتخاب ہونگے، نہیں ہوں گے، کب ہونگے، کیسے ہونگے، جیسے ایشوز پر دست و گریباں ہیں۔ ہر جماعت کے رہنما اور اس کے پٹھو میڈیا ارکان، تجزیہ کار آئین کو موم کی ناک بنائے ہوئے ہیں اور اپنے مفاد کے تحت اس کی شقوں کو موڑ دیتے ہیں۔ خود ساختہ تھیوریز کا عوام کو رجھانے کیلئے پرچار کرتے ہیں اور پھر مُکر جاتے ہیں۔ حکمرانی کے تسلسل اور حصول کیلئے مخالفین ہی خود اپنی صفوں میں دراڑیں ڈالنے اور انتشار برپا کرنے پر تُُلے رہتے ہیں۔ قید و بند، اہلیت و نا اہلیت کے جھگڑوں میں الجھے رہتے ہیں اور عوام ان حالات میں سوائے مایوسی، خلجان، پریشانی و درماندگی کا شکار ہو کر ٹُک ٹُک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے رہتے ہیں۔
یہ صورتحال محض دو چار برس کی نہیں بلکہ نصف صدی سے بھی زیادہ پر محیط ہے۔ جس میںان پردہ نشینوں کا بہت کردار ہے جو ملک اور عوام کی آزادی کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں لیکن بوجوہ اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کر کے بناتے بگاڑتے اور اپنی مرضی کے مطابق حالات کو تابع کرتے ہیں۔ بظاہر سیاست میں ان کا کوئی کردار نہں لیکن سیاست حکومت ان کے بغیر ممکن نہیں۔ آخر یہ کھیل کب تک جاری رہے گا؟ وطن کی عظمت و حفاظت کے ناطے ان ہیروز کو حالات کے تناظر میں نظر ثانی کرنی چاہیے کہ ان کے حوالے سے ہی وطن و عوام کی بقاء و خوشحالی کی ضمانت ہے۔ امجد اسلام امجد نے کہا تھا، ”ہمیں تمہاری انائیں تباہ کر دیں گی۔ مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے”۔ ہمارے رہنمائوں و فیصلہ سازوں کو اس شعر کو سنجیدگی سے لینا ہوگا کہ مسائل کا حل مکالمے میں ہی ہے، انا اور ضد سے معاملات حل نہیں ہوتے۔ افتخار عارف کے بقول!
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا
میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا
٭٭٭