پولیس آفیسر فیاض عدید شہید!!!

0
91
حیدر علی
حیدر علی

آسمان تیری لحد پر شبنم برسائے، چاند ستارے تمہارے رخسار پر بوسہ دیں،تم سفید گھوڑے پر سوار سفید بادلوں کے مابین اپنے رخت سفر کو باندھے رواں دواں ہو، اﷲ تعالیٰ نے جو تم کوشہید کا درجہ دینے کا وعدہ کیا تھا وہ اُس نے پورا کردیا، تم نے اپنے ہم وطنوں کی انا کو صحیح و سالم رکھا ، اُس پر آنچ نہ آنے دی، تم نے ساری دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ پاکستانی قوم کے افراد ہتھیار ڈالنے کا سبق کبھی سیکھا ہی نہیں ہے، تم نے پاکستان کے پرچم اور پاکستانیوں کے سر کو بلندرکھا،تمہاری تصویر کو دیکھ کر صرف پاکستانی نہیں بلکہ سفید فام امریکی بھی عقیدت سے سرنگوں کردیتے ہیں، تمہاری ہمت اور جوانمردی سے پاکستانیوں کا جو حوصلہ بڑھا ہے ، اُنہیں امریکی معاشرے میں عزت و افتخار سے رہنے کے جو مواقع ملیںہیں اُس کے دورس اثرات امروز فردا میں نظر آنے لگیں گے۔ ایک ہیرو کی کہانی کتنی مختصر ہے، صرف ایک پل میں جب ریندی جانز نے 26 سالہ پولیس آفیسر فیاض عدید سے پوچھا کہ کیا تم لوگوں کے پاس گن تو نہیں ہے تو اُن دونوں نے اِسے ایک مذاق ہی سمجھا ،اگرچہ فیاض اور اُن کے بہنوئی ہفتے کی شام سات بجے ایسٹ نیویارک کے ایک انتہائی خطرناک علاقے میں ایک گاڑی ہنڈا پائلٹ 24 ہزار ڈالر میں خریدنے کی سودے بازی کر رہے تھے، اُن کی گفت وشنید تو اِس ضمن میں گاڑی کے مالک سے کئی دنوں سے جاری تھی، یہ خرید و فروخت فیس بُک مارکیٹ پلیس کے توسط سے ہورہی تھی، گاڑی کے جعلی مالک ریندی جانز نے اُنہیں گاڑی کی تصویر اور تمام متعلقہ معلومات بھی فراہم کی تھیں جس سے اُنہیں اِس بات کی یقین دہانی ہوگئی تھی کہ فروخت کنندہ ایک متعبر پارٹی ہے ، کوئی چور ڈاکو نہیں لیکن گاڑی کہاں تھی ؟ یہ بھی ایک معمہ تھا اور اُنہیں اِس ضمن میں مزید سوچنے کا موقع بھی نہیں ملا،چند ساعت بعد ہی نام نہاد گاڑی کا فروخت کنندہ فیاض کے سر پہ پستول تان لیااور کہا کہ وہ اپنی جیب سے رقم نکال کر اُس کے حوالے کردیں، فیاض نے اُسکے حکم کی تعمیل کرنے سے انکار کردیا،جس کے بعد ملزم ریندی جانز نے اپنے پستول کا رخ فیاض عدید کے بہنوئی کی جانب کردیا. اِس لمحہ عدید فیاض جو نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ایک پانچ سالہ تجربہ کار افسر تھے، اُنہیں موقع ملا کہ وہ بھی اپنا سرکاری ریوالور نکال لیں . گھبراہٹ کے عالم میں لٹیرے ملزم نے فیاض عدیدکے سر پہ گولی چلادی اور وہ گِر پڑے، اُنکا پستول بھی اُن سے جدا ہوگیا،اِسی اثنا اُن کے بہنوئی اُنکا پستول اٹھاکر ریندی جانز پر اندھا دھند فائرنگ کردی تاہم اُن کا کوئی نشانہ بھی اپنے صحیح ٹارگٹ پر نہ لگا،معلوم ہوا ہے کہ فیاض عدید نے وہ رقم اپنی گاڑی میں رکھی ہوئی تھی.ریندی جانزجو تین مرتبہ پہلے بھی جرائم میں ملوث ہونے کی بنا پر جیل جا چکا ہے ایک دوسری سیاہ گاڑی پر وہاں سے فرار ہوگیا، دِن دہاڑے ایک پولیس آفیسر پر قاتلانہ حملہ سارے نیویارک میں ایک سراسیمگی و خوف کی فضا کے پھیل جانے کا باعث بن گیا ، پولیس کے ڈیٹکٹیو ز ہر جگہ متحرک ہوگئے ۔ نیویارک کی پولیس جس کا طرہ امتیاز ہے کہ وہ کبھی مجرموں کو بلا سزا نہیں چھوڑتی اور اُنہیں انصاف کے کٹہرے پر لاکر ہی دم لیتی ہے لہٰذا اِس واردات میں بھی پولیس فورس نے اُسی کارنامہ کو انجام دیا ، یو ایس مارشل کے ریجنل ٹاسک فورس کے اہلکاروں نے ویڈیو کے فوٹیج کی مددسے پیر کی شام کو ریندی جانز کو راک وے کاؤنٹی کے ایک ہوٹل ڈے اِن میں جہاں وہ اپنی بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ مقیم تھا گرفتار کرلیا، مارشل نے اُسے فیاض عدید کی مخصوض ہتھکڑی پہنادی۔
قطع نظر واردات کی رپورٹ کے طرح طرح کے سوالات ذہن میں ابھر رہے ہیں، سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا فیاض عدید کی جان بچائی جاسکتی تھی ؟ آخر ایک پولیس آفیسر ہوتے ہوئے اُنہوںنے اتنا بڑا رِسک کیوں لیا تھا؟ کیا اُنہیں علم نہیں تھا کہ ایسٹ نیویارک کا شمار جہاں وہ 24 ہزار ڈالر کی گاڑی خریدنے گئے تھے ایک انتہائی خطرناک علاقے میں ہوتاہے، خود پولیس رپورٹ کی مطابق اُس علاقے میں درجنوں افراد کو اِسی طرح کی واردات میں لوٹ لیا گیا ہے، گاڑی کا فیس بُک یا کریگ لسٹ کے ذریعہ خریدنا حماقت کے مترادف ہوتا ہے اگر کوئی گاڑی خرید بھی لے تو اِس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ فروخت کنندہ نے گاڑی کی قبل از خرید جو تعریفیں کی تھیں ،وہ سب کی سب صحیح ثابت ہونگی،دوئم گاڑی فروخت کرنے کے بعدبیچنے والا اِس طرح مفرور ہوجاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
پرانی گاڑی میں بہت ساری خامیاں ایسی ہوتی ہیں جس کا فوری طور پر شناخت ہونا ناممکن ہوتا ہے ، اور نہ ہی گاڑی کا مکینک اُسے بتا سکنے کے قابل ہوتا ہے، مثلا”گاڑی ڈرائیو کرتے ہوے اچانک رُک جاتی ہے، اِس طرح کی خامیوں کا تدارک اُسی وقت ممکن ہے جب آپ گاڑی کسی معتبر ڈیلر یا جاننے والے سے خریدیںجو گاڑی کی بلا خامی ہونے کی ضمانت دے۔
بدقسمتی سے پاکستانیوں کی لائف اسٹائیل کچھ ایسی ہے کہ اُنہیں ہمیشہ خطرناک حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے ، مثلا”وہ ٹیکسی اور اُبر رات میں چلاتے ہیں اور بارہا اُن کا واسطہ جرائم پیشہ افراد سے پڑتا ہے،مزید برآں وہ رات میں اُس سنسان علاقے سے گزرتے ہوے گھر جاتے ہیں جہاں جرائم پیشہ افراد اُنہیں لوٹنے کیلئے انتظار کرتے رہتے، میں تو ہمیشہ دُعا کرتا ہوں کہ پاکستانیوں کو اﷲ اپنی حفاظت میں رکھے تاکہ وہ اپنے بچوں کی صحیح طور پر پرورزش کرسکیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here