رعنائی خیال ایک ایسا افسانوی مجموعہ جس میں سات سمندر پار آنے والوں کی جھلک کہانیوں کی صورت میں نظر آتی ہے۔اس کتاب کی تقریب10دسمبر بروز جمعہ2021کو شاہنواز ہوٹل نیوجرسی میںہوئی۔یہ تقریب مجھے اپنی کتاب شائع ہونے کی خوشی میں کرانی تھی تاکہ سب کے ساتھ اسی خوشی کو بانٹوں، میری یہی اللہ سے دعا تھی کے میری یہ تقریب پروقار طریقے سے ہوجائے تمام مہمان خوشی سے آئیں اور خوش ہو کر جائیں۔یہ وہ ادبی لوگ تھے جنہوں نے ہمیشہ میری بہت عزت افزائی کی اور یہ وہ دوست احباب تھے جن کی محبت نے میرے ذہن کو جلا بخشی۔
یہ دن میرے لیے انتہائی خوشی کا دن تھا۔اور ساتھ میں ایک فکر تھی کے تمام کام اچھی طرح ہوجائے۔دسمبر کا مہینہ جمعہ کی شام اور کرسمس کی وجہ سے سڑکوں پر گاڑیوں کا رش یہ سوچ کر سب کو فکر تھی کے مہمان وقت پر آجائیں۔خدا کا شکر ہے کے تمام مہمان وقت پر تشریف لے آئے اور پروگرام اپنے وقت سے شروع ہوا۔ہال کو بہت خوبصورتی اور نفاست سے سجایا گیا تھا۔تقریباً سو لوگوں کا انتظام تھا اور ہال بھر گیا تھا۔خوبصورت سٹیج پر رعنا کوثر کی تصویر نظر آرہی تھی۔زرین یٰسین کی نظامت میں پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔سٹیج پر وہ پھول سجے تھے جو میرے دوست احباب لائے تھے۔ابھی تک گھر ان پھولوں سے ہرا بھرا نظر آرہا ہے۔کیا محبت تھی احباب کی۔اور ان کے خلوص کا ذکر انتہائی موزوں الفاظ میں انتہائی پر تاثر طریقے سے کیا۔ان کے بعد ڈاکٹر نوشین سلیمہ تھیں جو میری بھانجی تھیں۔انہوں نے خوبصورت اشعار پڑھے۔ڈاکٹر طارق ابراہیم رعنا کوثر کی بہن کے بڑے داماد اور عزیز بھی ہوتے ہیں۔نے اپنی رشتہ داری کا حق نبھا کر اپنی خالہ رعنا کوثر کو لفظوں اور شعروں میں خراج تحسین پیش کیا۔یوں لگا ہر شخص ہر محبت کرنے والے کے منہ سے پھول جھڑتے رہے اور پوری تقریب مہکتی رہی دوسرا دور نیویارک نیوجرسی سے آئے ہوئے ادبی دوستوں کا تھا۔جمیل عثمان ایک مشہور شاعر افسانہ نگار اور پروقار انسان ہیں انہوں نے رعنا کوثر کی کتاب سے خوبصورت مناظر جو ان کے انسانوں کے آغاز میں ہوتے ہیں یا جو ان کو پسند آئے اس کے اقتباسا ت سنائے۔پروفیسر خالدہ ظہور نیویارک کا ایک مستند نام ہے جو اپنے اظہار خیال سے ایک منفرد جگہ بناتی رہی ہیں وہ ایک کلاسیکی ادب پڑھنے اور لکھنے والی خاتون ہیں مجھ ناچیز کے بارے میں انہوں نے کہا کے رعنا کوثر خوش نصیب ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو خوبصورت ذہن دیا اساس دیا لفظوں کے موتی بخشے اور کہانیاں تراشنے کا فن عطا کیا۔اس کے بعد مصروف افسانہ نگار اور شاعرہ ڈاکٹر شہلا نقوی نے میرے انسانوں کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور مجھ ناچیز کو اپنی ادبی دوست کہا۔اب باری تھی جناب مجید صبا کی جو ایک زمانے میں کراچی یونیورسٹی میں میری ٹیچر بھی تھیں انہوں نے نہ صرف رعنا کی ادبی کاوشش اور کتاب کو بے حد سراہا۔بلکہ ان کی طالبعلمانہ سرگرمی کا بھی ذکر کیا۔
خالد عرفان معروف مزاحیہ شاعر نے جو رعنا کوثر کی کتاب کی اشاعت میں سرگرم عمل رہے بہت اچھے لفظوں میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
جب ماموں ایمن جو صاحب صدر تھے۔انہوں نے کہا کہ ایک کتاب انہوں نے افسانہ نگاروں کی ترتیب دی ہے اور رعنا کے تین افسانے اس میں شامل ہیں۔انہوں نے بڑے اچھے الفاظ میں رعنا کے افسانوں کی تعریف کی تقریب اختتام پذیر تھی کہ صباحت جو ایک ادب دوست شخصیت ہیں ہر طرح کے فن میں ماہر ایک اپنے ہاتھ سے بنا ہوا کیک جس کی سجاوٹ میں انہوں نے بہت کام کیا تھا تالیوں کی گونج میں لے کر آئیں اور رعنا نے یہ کیک کاٹا۔
طعام کا بہترین انتظام تھا کھانے کے بعد تمام باذوق لوگوں نے باقاعدہ رعنا کی کتاب خریدی اور وہ دستخط کرنے میں بے حد مشغول ہیں۔
حلقہ فن وادب نے اس تقریب کا اہتمام کیا۔مجیب لودھی کا تعاون رہا جو نیوز پاکستان کے پبلشر ہیں۔خالد عرفان اور یٰسین صاحب کے زیراہتمام یہ تقریب بہت کامیاب رہی۔
آخر میں مشہور شعراء نے اپنا کلام سنایا۔جوخالد عرفان کی نظامت میں تھا۔
تمام پروقار ادب دوست سامعین اور متنظمین کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔
٭٭٭