”نا ڈھولا ہو سی نہ رولا ہو سی”

0
89
شبیر گُل

پاکستان میں پوری پی ڈی ایم اور جرنیلوں کے پالتو ایک شخص کو الیکشن اور سسٹم سے باہر کرنے کی کوشش میں ہیںتاکہ الیکشن اپنی مرضی اور منشا کے مطابق کرائے جاسکیں۔ اگر عمران الیکشن سے باہر ھوگا۔ تو کوئی رولا رپا نہیں ھوگا۔” نا ڈھولاہو سی نا رولاہوسی ”اللہ کے فضل سے خزانے خالی ہیں۔ موجودہ رجیم کرپشن کا نام و نشان مٹا گئی ہے، چھ کلو چرس پر سزا نہیں، پچاس کروڑ کے غبن پر سزا کوئی نہیں۔مولانا فضل الرحمن نے ماشااللہ کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ جرائم اور کرپشن کے بادشاہ زرداری کا روپیہ گزشتہ ایک سال انتہائی تیزی سے دبئی منتقل ہوتا رہا۔ خوبصورت تتلیاں اور پریاں یہ بہترین فریضہ انجام دیتی رہیں۔ لیکن مذہبی درندے فضل الرحمن کو اب وہ تتلیاں نظر نہیں آر ہیں اور نا ہی کرپشن۔ چونکہ پورے پاکستان پر فضل الرحمن کے مولویوں کی حکومت ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے دینی مدارس اور دیوبند پاکستان صدر فضل الرحمن صاحب پی ڈی ایم کے سربراہ۔ خیبر پختونخواہ میں انکی حکومت۔مرکز میں انکی وزارتیں۔ پیپلز پارٹی ،ن لیگ زرداری اور شریف برادران پر مولانا کی سربراہی۔ یزید لعین کے چیلے اقتدار کی کی کرسی پر متمکن ہیں۔ ڈیزل کو وزیراعظم کے جہاز کا استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ مملکت خدادا کی معیشت ، نظریاتی تشخص ، اقتصادیات اور سیکورٹی کا جنازہ نکالنے والے درندے ، بنوامیہ کا طرز طریق اپنائے ہوئے ہیں۔ کبھی ڈکٹیٹروں کی شکل میں ، کبھی ن لیگ، مسلم لیگ، ق لیگ اور پیپلز پارٹی کی شکل میں مسلط ہیں۔ فوجی اشرافیہ نے مختلف شکلوں میں کتے پال رکھے ہیں جو جرنیلوں کی کرپشن بھی چھپاتے ہیں اور خود بھی لوٹے مار کرتی ہیں۔ یہ پلید لوگ پاکستان کے حصول کے لئے دی گئی ،لاکھوں قربانیوں کے مجرم ہیں ۔ یہ یزید النسل لوگ ہیں۔ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پھول، جنت میں نوجوانوں کے سردار۔ امام حسین رضی اللہ عنہم اور نبی کے خاندان کے ساتھ ظلم و بربرئیت کرنے والا، لعین وملعون ،درندہ یزید مسلمانوں کے چہرے پر بدنما داغ ہے۔ جس نے کفر وشرک کے ظلم وجبر کو پیچھے چھوڑ دیا۔ویسے ہی ان قومی مجرموں نے عوام کے ساتھ گزشتہ70 سال سے وہی کھیل رچا رکھا ہے جو بنو امیہ نے اپنایا تھا۔جج، جرنیل، بیوروکریٹ سبھی گندہ کردار ، سیاہ چہرے ۔ موجودہ دور میں کچھ صحافیوں کا کردار مایوس کن ہے ۔بیشمار صحافی لفافوں کی وجہ سے بھونکتے ھیں۔ بیجا طرفداری کرتے ہیں۔ایسے ہی بنو امیہ کے دور یزید لعین کی طرفدار لء انتہا تھی۔ یہ مسلمانوں کا المیہ رہا ہی کہ حق بات کو چھپانا اور غلط کے ساتھ کھڑے ہونا۔ آمریت ،ملوکیت اور ڈکٹیٹروں نے ملکی وسائل اور عہدوں پر پر بندر ناٹ کر رکھی ہے۔اسٹبلشمنٹ چوروں کے ساتھ مل چکی ہے جس سے معاشرہ میں عدم توازن پیدا ہوگیا ہے۔معاشرتی تفاوت کی وجہ سے عام عوام پس چکے ہیں ۔یزیدی ٹولہ بے لگام ہو چکا ہے۔کمزور عدلیہ جرنیلوں اور حکمراں طبقہ کی راکھیل ہے۔ یہ لوگ اندر سے اتنے غریب ہیں کہ توشہ خانہ کے تخائف تک نہیں چھوڑتے۔ توشہ خانہ مئں سب سیاسی لیڈروں کی ساتھ ایک جیسا سلوک ھونا چاہئے۔ آجکل پیپلزپارٹی شہباز شریف اور اسحاق ڈار کے شان میں قصیدے پڑھ رہی ہے۔ اور شہباز شریف صاحب جسے کل سندھ کا ڈاکو کہتے تھے آجکل محترم اور عزت مآب کی القابات سے نواز رہے ہیں۔ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری سے پی ڈی ایم کے جمہوری غبارے سے ہوا نکل گئی۔جمہوریت کے علمبرداروں نے اپنی ڈکیتیاں چھپانے کے لئے پارلیمنٹ سے ترامیم کرکے اپنے گھناونے چہروں سے نقاب ہٹا دئیے۔ آئی ایم ایف، نجکاری، بیرونی امداد ، خارجہ، داخلہ اور بیرونی معاہدے کا اختیار دے کر اپنی موت کے پروانے پر دستخط کردئیے۔ نجکاری اور پرائیویٹائزیشن کے لئے دونوں بڑی جماعتوں نے بندر۔ بانٹ کے لئے کمر کس لی ہے۔ اگر غیرت کا لیول ٹھیک ھو تو بہاولپور یونیورسٹی کا سانخہ 9 مئی کے واقعہ سے کم نظر نہیں آئے گا۔اور اگر پیٹ میں حلال لومہ ہو تو بیٹیاں سانجھی نظر آئینگی۔ کمائی کے ذرائع جائز ہوں تو آٹے دال کا بھا روزانہ معلوم ہوتا ہے۔ پیٹ میں حرام ھو تو عوامی مسائل کا ادراک تو دور کی بات۔ غیرت کا لیول شرم و حیا نہ ہونے کیوجہ سے گر جاتا ہے۔ دماغ میں یزیدی خناس کا ابھرتا حیوانی رویوں کو اجاگر کرتا ہے۔جو سیاسی دوکانداروں، کرپٹ جرنیلوں اور بے غیرت منصفوں کو جنم دیتا ہے۔جو معاشرتی برائیوں کی جڑ اور مجرموں کی پناہ گاہیں ہیں۔ اسمبلی سے تھوک کے حساب سے بغیر اکثریت کے بل پاس کروانا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ جس کی لاٹھی اسکی بھینس کے مصداق ۔آئینی قوانین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ حکمران دوبارہ اقتدار میں آنے کے لئے ہر ناجائز حربہ استعمال کررہے ہئں۔ جو آئین سے بغاوت کے ذمرے میں آتا ہے۔ عمران خان کو الیکشن اے باہر رکھنے کے لئے اداروں پر دبا ڈالا جارہا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ آئندہ الیکشن کے لئے مردم شماری کی جائے گی۔ مردم شماری کے لئے ڈیڑھ سال سوئے رہے ۔ اب یہ اعلان بد نیتی پر مبنی ہے۔ معلوم نہیں ھوتا کہ پاکستان بغیر کسی آئینی ضابطے اور قانون کیسے چل رہا ہے۔ کریمنل رجیم لوٹ مار بھی کررہی ہے اور قانون کو روندھ بھی رہی ہے۔ جو گند اور تباہی انہوں نے مچائی ہے اسے ٹھیک کرنے میں کئی سال درکار ہونگے۔ لٹیروں ، معاشی دہشتگردوں اور عوام دشمن ڈاکوں کو ووٹ دینے والے یاد رکھیں کہ ان کو ووٹ دینا مستقبل کو اندھیرے میں دھکیلنا ہے لہٰذا ان سفاک درندوں،قومی مجرموں، اُجرتی قاتلوں سے چھٹکارا پاکستان کے تخفظ کی ضمانت ہے۔ ووٹ کی امانت کو معمولی مت سمجھیں ۔ اس سے آپکے۔ آپکے بچوں کا مستقبل وابستہ ہے۔جسکی کنجی آپکی اپنی جیب میں ہے۔ باجوڑ میں دہشت گردی کے واقعہ نے ملکی فضا کو سوگوار کردیا ۔ اسی کارکنان کی ہلاکتیں اور ڈیڑھ سو زخمی ، میں ناقص طبی سہولیات سے موجودہ اور سابق حکمرانوں کی نالائقی ظاہر کرتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہونے کی وجہ سے بیرونی دورے پڑ رہے ہیں ۔ دھماکہ کی خبر سن کر مولانا فضل الرحمن بیرونی دورہ ادھوری چھوڑ کر حکمرانوں کے خلاف احتجاجی بیان دینے پہنچ گئے۔اور پھر مولانا فضل الرحمن نے مولانا ڈیزل سے خودکش دھماکہ پر احتجاج کیا۔جیسے شہباز شریف ماضی کے حکمرانوں کو کوس رہے ہیں۔ گزشتہ تیس سال اے پنجاب اور مرکز میں یہی اشرافیہ حکمران ہے جس جو شہباز شریف اشرافیہ کہہ رہے ہیں۔ یعنی یہ چور اچکے اپنے آپ کو ہی گالیاں دے رہے ہیں۔ فضل الرحمن ، زرداری اور بلاول وزیراعظم کا پروٹوکول اور انکا جہاز استعمال کررہے ہیں۔ آجکل ان قومی مجرموں کی لاٹری نکل آئی ہے۔ کیونکہ اسٹبلشمنٹ کی آنکھ کے تارے عمران خان کے بڑبولے پن کی وجہ اے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ میں ککرے پڑ چکے ہیں۔ موجودہ دور میں کچھ صحافیوں کا کردار مایوس کن ہے ۔بیشمار صحافی لفافوں کی وجہ سے بھونکتے ہیں۔ بیجا طرفداری کرتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا المیہ رہا ہی کہ حق بات کو چھپانا اور غلط کے ساتھ کھڑے ہونا۔ آمریت ،ملوکیت اور ڈکٹیٹروں نے ملکی وسائل اور عہدوں پر بندر بانٹ کر رکھی ہے۔اسٹیبلشمنٹ چوروں کے ساتھ مل چکی ہے جس سے معاشرہ میں عدم توازن پیدا ہوگیا ہے۔معاشرتی تفاوت کی وجہ سے عام عوام پس چکے ہیں ۔یزیدی ٹولہ بے لگام ہو چکا ہے۔کمزور عدلیہ جرنیلوں اور حکمراں طبقہ کی راکھیل ہے۔ باجوہ ٹھیک کہتا تھا کہ صحافیوں کی تنخواہ بہت زیادہ ہے۔ایسے ہی ہمارے بینکر ز جنہیں باہر سے لایا جاتا ہے ۔ بیوروکریٹس کے پاس لگثری گھر۔ لگثری گاڑیاں ۔ کہاں سے آتی ہیں۔ انکے بچوں کے پاس عیاشیوں کے لئے حرام کا مال ۔ دہلی کے وزیراعلیٰ جسے چوڑا سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے خرامخور بیوروکریٹ چوڑوں سے بہت بہتر ہیں۔ بلکہ میں یوں کہوں گا کہ مسلمان ہونے کے باوجود ، ھمارے لیڈر انکے جوتوں برابر ہیں۔آپ کلمہ گو ہوں ۔ اور ڈاکے ماریں۔ کریمنلز سے کڑوڑوں کی تخائف وصول کریں۔ آپ کلمے کی توہین کرتے ہیں۔ جو خلف نامہ میں پڑھتے ہیں۔ ان کتوں کیوجہ سے پاکستانی بدنام ہیں۔ نیویارک میں گزشتہ چند سالوں پاکستانی کمئونٹی میں فیملی ڈسڑبنس کے کئی واقعات رونما ھوچکے ہیں جس میں کچھ بچوںنے باپ کو قتل کردیا ۔ کئی واقعات میں بیوی کا قتل اور کچ اوقات میں بچوں کا قتل ۔ یہ انتہائی دردناک اور کربناک واقعات ہیں جس نے کمئونٹی کے سنجیدہ لوگوں کو پریشان کردیا ہے ۔کمئونٹی میں گزشتہ چند سالوں سے بلیک میلنگ اور کردار کشی جاری ہے۔ جو افسوسناک اور انتہائی تکلیف دہ ہے۔ پاکستانی کمئونٹی کے علاوہ تمام کمئونٹیز اپنی کمئونٹی کے لئے ، بچوں کے مستقبل کے لئے انکے آف ٹائم سکولز کے لئے پلاننگ کرتے ہئں۔ لیکن ھم اپنے سیاسی مفادات کی وجہ سے مختلف گروپوں اور دھڑوں میں تقسیم ہیں۔ جیسے ھم بچپن سے سیاستدانوں کے منہ سےآئین ،جمہوریت ،آئین جمہوریت کی گردان سنتے آرہے ہیں۔حالانکہ انکی جائدادیں، بزنس باہر۔انکے بچوں کی تعلم اور انکی شہریت بیرون ملک کی۔ انکا علاج و معالجہ بیرون ملک۔انکی کرپشن ۔ لوٹ مار ۔الیکشن پالستان میں۔ یہ ظالم درندے بجلی مہنگی کریں یا گیس۔اشیا خوردونوش کی قیمتیں بڑھائیں یا انہیں کوئی فرق نہئں پڑتا ۔کیونکہ انکی گیس،بجلی فری۔اوپر سے اللہ کی رحمت، لوٹ مار بے حدوحساب۔ پارٹیاں بھی بدلتے ہیں۔ضمیر بھی بیچتے ہیں۔پھر بھی غیرت مند کہلاتے ہیں۔ موجودہ دور میں عزت کا تعلق قائداعظم کی نظریہ سے نہیں۔ قائد کی تصویر والے کاغذ سے ہے۔ جس کے پاس زیادہ کاغذ اور بڑا عہدہ ،وہ غیرت مند بھی اور عزت دار بھی۔ ویسے Ethics اور ضمیر سے انکا کوئی رشتہ نہئں۔ انکا اوڑھنا بچھونا صرف مال و دولت اور منصب ہے ۔ انکا دین اور مذہب سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی آخرت میں جوابدہی کا احساس ۔یزیدی فکر ،فرعونی لہجے،اور قارون کے خزانے کیطرح جمع کرنے سے عاقبت کی بربادی یقینی ہے۔ کفن کی جیب نہیں ہوتی ۔خالی ہاتھ،شرمندگی اور ندامت سے اللہ کے خضور پیش ہونا ہے۔ قارئین !۔ انسانی زندگی کا مقصد عبادت خدا کی، اطاعت مصطفے کی اور خدمت مخلوق خدا کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here