پاکستان کی اولمپکس میں نمائندگی!!!

0
11
شمیم سیّد
شمیم سیّد

چوبیس کروڑ آبادی پر مشتمل اورایٹمی طاقت کا حامل پاکستان جسے خطے کی جغرافیائی ساخت کے حوالے سے بھی بہت زیادہ اہمیت ہے، لیکن عالمی دنیا میں اس کے باوجود ہم وہ مقام حاصل نہیں کر پارہے جو ہمیں کرنا چاہیے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم عالمی سطح پر شناخت کے حوالے سے اہم لوازمات نظر انداز کرتے جارہے ہیں۔ چند لاکھ کی آبادی والے ممالک بھی ان مقابلوں میں بہترین کارکردگی دکھا کر اپنی پہچان عالمی دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ لیکن کم و بیش چوبیس کروڑ کی آبادی والے اس ملک یعنی وطن عزیز پاکستان میں صرف سات ایسے ہیرے سامنے آئے جنہوں نے اولمپکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اور میں سلام پیش کرتا ہوں ان ساتوں ایتھلیٹس کو جنہوں نے کم از کم کوشش تو کی اور انہیں کوشش کے نمبر ضرور ملنے چاہئیں۔میڈل کی واحد امید ارشد ندیم رہ گئے تھے جنھوں نے اپنی بھرپور کوشش سے جیولین تھرو میں نہ صرف پاکستان کے لیے گولڈ میڈل حاصل کیا، بلکہ ایک نیا ریکارڈ بنانے میں بھی کامیاب رہے۔لیکن ہم ہار جانے والے ایتھلیٹس پر طنز کرنے میں اتنے مصروف ہیں کہ ہم نے یہ سوچنا بھی گوارا نہیں کیا کہ اس نہج تک معاملات پہنچے کیوں؟ کیا وجوہات ہیں کہ ہم مسابقت کی دوڑ میں اتنے پیچھے رہ گئے ہیں۔ یا شاید ایک صحت مند معاشرہ ہماری ترجیح ہی نہیں۔ اور نہ ہی عالمی دنیا میں ایک مثبت تشخص ہماری پہچان ہے۔ ہم پوری دنیا میں صرف ایک بھکاری کے طور پر ہی اپنی پہچان پہ خوش ہیں کہ کم از کم کچھ مل تو جاتا ہے۔ہم کھیلوں کے معاملے میں اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وائلڈ کاڑد انٹری پر بھی خوشی سے بغلیں بجاتے ہیں، جب کہ بنیادی طور پر یہ بھی بھیک کی ہی ایک شکل ہے۔ پوری قوم کی دعائیں ارشد ندیم کے ساتھ تھیں اور انھوں نے قوم کو مایوس بھی نہیں کیا لیکن کیا صرف ایک جیولین ہی ایسا ایونٹ ہے جس میں فائنل رانڈ تک پہنچنا بس ہماری کامیابی ہے؟
ہم نے پاکستان میں کرکٹ کو کرتا دھرتا بنا لیا ہے جبکہ آج تک اولمپکس میں حکمرانی رکھنے والے اہم ممالک میں سے چین میں کرکٹ کا وجود ابھی طفل مکتب تک کا ہے شاید اور انکل سام کے حوالے سے اب کرکٹ کے بچونگڑے تگڑے ہورہے ہیں۔ یعنی دنیا دیگر کھیلوں کو اپنی پہچان بنا رہی ہے جن پر اخراجات بھی کم آتے ہیں اور کم جگہ پر ان کی تربیت کا بھی اہتمام ہو سکتا ہے۔ مثال ٹیبل ٹینس کی ہے، کتنی جگہ اور سرمایہ چاہیے آپ کو؟ ایک ایتھلیٹس کا میدان اچھا ہر شہر میں ہو تو سوچیے، ہیمر تھرو، جیولین تھرو، جمناسٹک، تائی کوانڈو، کراٹے، والی بال، ہینڈ بال، رننگ، ڈسکس تھرو، اسکواش، ٹینس اور اس جیسے کتنے ہی مزید کھیل ہیں جن کے لیے ایک اسٹیڈیم میں جگہ مہیا ہوسکتی ہے لیکن ہم نے کرکٹ میدانوں کے علاوہ کسی میدان کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔ہم نے ان کھیلوں کی طرف آج تک توجہ ہی نہیں دی جن پر بہت کم محنت اور لاگت سے ہم زیادہ تمغے جیت سکتے تھے۔ بلکہ ہماری امیدیں صرف ہاکی سے رہیں اور اب تو ہاکی کو بھی نافرمان بیٹے کی طرف گھر سے نکال کر بس سارا لاڈ کرکٹ ٹیم کیلیے ہے۔گرمائی یا سرمائی اولمپکس میں ایسے ایسے ممالک کے نام سامنے آتے ہیں جو ہم نے سنے ہی پہلی دفعہ ہوتے ہیں۔ لیکن ہم پانچواں آبادی کے لحاظ سے بڑا ملک ہونے کے باوجود مین رائونڈ سے پہلے ہی بوریا بستر سمیٹنے کی تیاری شروع کردیتے ہیں اور ایسے ایسے کھیل دیکھنے کو ملتے ہیں ،اولمپکس میں کہ ہم نے پہلے دیکھے ہی نہیں ہوتے لیکن ہم کرکٹ کی دنیا سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ اس مرتبہ اولمپکس مقابلوں میں 32 کھیلوں میں میڈل کی جنگ ہورہی ہے اور پاکستان کی کتنے کھیلوں میں نمائندگی ہے؟ آپ سوچیں گے تو لمحہ فکریہ آپ کا منتظر ہوگا۔ اور ان تمام کھیلوں کیلئے کتنی سہولیات چاہئیں، اس کیلئے بھی بس اتنا کہنا مناسب ہوگا کہ ایک کرکٹ ٹیم ختم کر دیجئے تو سارے کھیلوں کا خرچ نکل آئے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here