”کئی نسلیں”

0
243
ماجد جرال
ماجد جرال

بحیثیت قوم ہم اتنے تقسیم ہو چکے ہیں کہ مسائل کی ضربیں اب ہمیں باوقار اور غیرت مند قوموں کی فہرست سے منفی کرتی جارہی ہیں، مذہبی اختلافات سے اب سیاسی اختلافات نے ایک ایسی دراڑ کو جنم دیا ہے جو ختم ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ ہمارے مسائل آج بھی اسی نہج پر بلکہ بدتر صورت میں موجود ہیں، جنہیں ختم کرنے کے وعدے سنتے سنتے کئی نسلیں بڑھاپے سے ہاتھ ملا چکی ہیں۔ہم ایک ذہنی طور پر اُلجھی ہوئی قوم کہلانے کے لائق ہیں، جسے آج تک سمجھ نہیں آرہی کہ ہم سیدھے راستے پر چلنا چاہتے ہیں تو کون ہمیں روک رہا ہے، کون ہمیں بار بار راستے سے بھٹکا رہا ہے یا کیوں ہم بھٹک رہے ہیں۔ اسی الجھی سوچ میں گم کئی نسلیں بڑھاپے سے ہاتھ ملا چکی ہیں۔ہم جنونی اس قدر ہو چکے ہیں کہ اب اپنے سوا ہر کوئی دھوکے باز، فریبی اور جھوٹا نظر آتا ہے۔ اس جنونی پن کو ہم سے ہماری اقدار اور روایات کا گلا گٹوانے اور کٹوانے کے بعد بھی سکون نہیں مل رہا۔جنونی پن کے اس دلدل میں دھکیلنے والے کا کوئی سراغ نہیں مل رہا یا ہم ڈھونڈنا نہیں چاہتے، اسی سوال کا جواب تلاش کرتے کرتے ہماری کئی نسلیں بڑھاپے سے ہاتھ ملا چکی ہیں۔
اپنے ہی آزاد وطن میں اب قیدی ہونے کا احساس بڑھتا جارہا ہے، ہمارے آس پاس قومیں کم از کم اپنے ہاتھوں یوں برباد نہیں ہوئی جس طرح ہم نے خود کو نوچ ڈالا ہے۔ ہم اچھے اور ترقی یافتہ ہونے کی کوششوں کے باوجود کیوں اپنا مقام نہیں بنا پا رہے اس سوال کا جواب پانے کہ جستجو میں کئی نسلیں بڑھاپے سے ہاتھ ملا چکی ہیں۔عام آدمی کو اس کا حق ملے گا، کوئی کسی سے زیادتی نہیں کرے گا اور قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گے، سیاست دان ملک کا نظام سنبھالیں گے اور انصاف فراہم کرنے والوں کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔سنتے رہے کہ ہم سب کو اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوگا، اس دائرے سے باہر ہوکر کون باقی سب کو مداری بنا رہا ہے، یہ موقف پر قائم رہنے کی ہمت پانے کی آرزو میں کئی نسلیں بڑھاپے سے ہاتھ ملا چکی ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here