اگر ہم غور کریں تو یہ کس قدر بڑی سعادت ہے، اللہ تعالیٰ جو ساری کائنات کا خالق ہے ،ہزار یا مخلوقات کا خالق ہے اس نے ہمیں اشرف المخلوقات انسان بنایا اور پھر یہ سعادت اس سے بڑھ کر ہے، انسانوں میں مسلمانوں کے گھر میں پیدا فرمایا اور ہمارے نزدیک کامل مسلمان وہی ہے جس کا سینہ محبت رسول سے سرشار ہے۔ اس لئے کہ علامہ اقبال نے کہا تھا !
مغز قرآن روح ایمان جان دیں
بہت حب رحمتہ العالمین
لیکن صد افسوس ہمیں یہ گراں قدر خزانہ شاید مفت میں میسر آیا ہے ہمیں اس کی قدر نہیں اس لئے کہ عمومی طور پر مفت میں ملی چیز کسی قدر انسان کم ہی کرتا ہے۔ ہمارے پاس اسلام تو ہے لیکن روح اسلام سے محروم میں ہمارے پاس ایمان تو ہے لیکن کمال ایمان سے محروم ہیں انہیں ایک حدیث کی روشنی میں اپنا جائزہ لیں ہمارے پاس ایمان ہے یاحلاوت ایمان بھی ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریمۖ نے ارشاد فرمایا جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس کوپا لے گا۔1۔ پہلی چیز یہ ہے اللہ اور اس کا کریم رسول اسے باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہو کہا ہم اس کیفیت سے سرشار ہیں یہ دیکھنے کیلئے بڑا آسان سا ضابطہ ہے اگر گفتار کردار خوشی عمی معیشت، معاشرت الغرض زندگی کا لمحہ اتباع رسالت مآب سے سرشار ہے تو اس کا مطلب ہے اللہ اور اس کا رسول باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے لیکن معاملہ اگر برعکس ہے تو پھر تمہیں کہہ دو یہی آئین وفاداری ہے۔ 2۔ دوسری علامت یہ ہے جس شخص سے بھی اسے محبت ہو وہ محض اللہ کی وجہ سے ہو کیا آج ہماری محبت، دشمنی کسی کو عطا کرنا کسی سے ہاتھ روکنا کسی سے ملنا یہ اللہ کیلئے ہے۔ اس کا جواب اپنے ضمیر سے لینا ہے ہماری عمومی صورتحال تو یہ ہے۔
تم جو بدلے تو اپنا بھی یہی طور سہی
تم نہیں اور سبھی اور نہیں اور سہی
3۔ تیری خصلت یہ ہے کفر سے نجات پانے کے بعد حالت کفر میں لوٹنے کو وہ اس طرح پسند کرے جیسے آگ میں پھینکے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔ یعنی صرف ایمان لے آئے اب اطمینان سے بیٹھ جائیں۔ نہیں بلکہ اس کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے سر تو کٹ سکتا ہے لیکن ایمان نہیں چھوٹ سکتا اس حدیث کی روشنی میں اپنا جائزہ لیں۔ اگر یہ تین خصلتیں آپ میں موجود ہیں تو مبارک ہو آپ نے ایمان کی حلاوت کو پالیا ہے اگر نہیں تو پھر عزم با عزم کریں ہم ایمان کی حلاوت کو حاصل کریں گے دعا ہے رب کریم ہم سب کو حلاوت ایمان سے نواز دے اور اس پر استقامت عطا فرمائے۔ اللھّم ثبت فلوبنا علی دنیک آمین۔
٭٭٭












