”قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت! ”

0
50
پیر مکرم الحق

44سال بیت گئے اس قتل بے گناہ کو پاکستان کا قابل دانا اور دور اندیش رہنما شہید ذوالفقار علی بھٹو کو بیدردی سے رات کے اندھیرے میں ایک بزدل منافق جنرل نے بے ضمیر ججوں کے ذریعے ایک جھوٹے مقدمہ میں قتل کیا۔ آج اس ظلم کی داستان کے آغاز کو تقریباً آدھی صدی بیت گئی لیکن آج بھی بھٹو سندھ اورپاکستان کی عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ اس اعلیٰ ترین رہنما کی زندگی کی شمع گل کرکے بھی ظالموں کو چین نہ آیا اور انکی ذہین وقابل صاحبزادی کو بھی قتل کروا دیا ،اس سے پہلے ان کے دو صاحبزادوں کو قتل کیا گیا۔ سارے خاندان کو سزا دیدی گئی۔ کیا قصور کیا تھا بھٹو نے یہی نہ کہ جو ملک کئی برسوں سے بغیر ایک متفقہ اور مستند آئین کے بغیر چل رہتا تھا۔ نوے ہزار پاکستانی سپاہیوں اور افسران کو ہندوستان کی قید سے رہائی دلوا کر پاکستان کو مزید ہزیمت سے بچایا۔1974ء میں اسلامی ممالک کی کامیاب ترین کانفرنس کی جس میں تمام اسلامی دنیا کے چیدہ چیدہ رہنمائوں کی شرکت کو یقینی بنوایا۔ پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنانے کے عمل کی بنیاد ڈالی۔ بھٹو اور انکی بیٹی کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور قابل ترین چند رہنمائوں میں ہوتا ہے اور انکے قتل کے بعد جو پاکستان کے مقدر میں سیاسی قیادت آئی اس نے عوام کو مایوس اور عوام کے حالات بگاڑنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی اپنی تجوریاں بھرنے اور ایک دوسرے پر مقدمات اور کیچڑ اچھالنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا اور آجکل ایک بین الاقوامی ڈان نے پاکستان کو بشمول تمام اہم اداروں کے یرغمال بنایا ہوا ہے اور اس خوش فہم کو ابہام ہے کہ وہ اس ملک کی تاریخ کا سب سے مقبول ترین رہنما سے وہ عدالتوں میں اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ افواج پاکستان کی اعلیٰ ترین قیادت کے نام لیکر غلیظ الزامات لگاتا ہے پھر بھی اسے کوئی چھو نہیں سکتا۔ عدالتیں تو وہ سمجھتا ہے کہ اس کی جیب میں پڑی رہی ان سب کو ڈراتا ہے اور دھمکاتا ہے پھر بھی کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے میں ہمت نہیں کہ اس بے مہار بیل کو نتھ ڈالیں جو بچاری ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس ہمت کرکے ڈان کو نتھ ڈالنے زمان پارک میں ڈان کی رہائش پر گئی تھی وہ شدید زخمی ہو کر اپنے58سپاہیوں کے ساتھ ہسپتال داخل ہے۔ قانون اور انصاف کی جتنی مٹی پلید اس ڈان اور انکے کھلاڑیوں نے کی ہے۔ اپنی جماعت کو تحریک انصاف کہلاتے ہیں۔ اب تو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ اس بے قصور باپ بیٹی کے قتل بیگناہ کا انتقام ہے جوکہ مکافات عمل کی صورت میں پاکستان کے دو اہم ترین ادارے ڈان کی بدمعاشی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ جس منظم طریقے سے اس 23کروڑ افراد کے ملک کی جڑیں کھوکھلی کی جارہی ہیں۔ طاقتور ادارے جس بے بسی سے ہے سارا تماشہ خاموشی سے دیکھنے پر جیسے مجبور ہوں اور اعلیٰ ترین عدالت تو بیبسی کی علامت بنی ہوئی ہے چیف جسٹس صاحب بہادر عدالت میں دوران کارروائی آنسوئوں سے رو رہے اور فرما رہے ہیں کہ ”اُف اللہ ہم تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے”یہ ہے مکافات عمل جو انصاف کا مذاق بنا کر عدالتوں کی اونچی نشستوں پر براجمان جج صاحبان نے غریبوں اور بے بسوں پر ظلم ہونے یا تو ظالموں کا ساتھ دیا یا خاموشی پر اکتفا کی دونوں صورتوں میں اپنے فرائض منصبی سے بددیانتی کی۔ سب سے پہلے تو یہ بددیانت جج ہی قابل سزا ہیں۔ آج تلک بلوچستان اور سندھ کے ہزاروں افراد غائب ہیں وارثین رو رو کر اندھے ہوگئے لیکن عدالت میں بیٹھے فرعونوں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رہینگی۔ بھٹو سندھ کے ریگستانوں کا رانجھا تھا اسکے لئے لئے درجنوں نے اپنے کو جلا دیا آج کی بھٹو کی بے بسی کا سوچ کر لاکھوں لوگ اشکبار ہو جاتے ہیں آخر خالق حقیقی پر ان آہوں اور سسکیوں کا تو اثر ہونا تھا۔ اکبر بگٹی پہاڑوں کا بیٹا تھا جس نے ذلت سے مرنے کو ٹھکرا کر اسی سال کی عمر میں اپنی زمین کے پہاڑوں میں ظالم مشرف سے ٹکرا کر اپنے ہی پہاڑوں کے ایک غار میں مدفن ہونے کو ترجیح دی۔ یہ دونوں شہید سندھ اور بلوچستان سمیت پورے پاکستان کے رومانوی کردار ہیں۔ جنہوں نے اپنے لوگوں پر اپنی جانیں نچھاور کرکے سچائی کے راستے میں اپنی لہو سے دیئے جلا کر اس راہ کو روشن رکھا ہے۔ اب یہی راہ ہے جو پاکستان کی عوام کیلئے راہ نجات ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here