امریکہ : اسلامو فوبیا سے مسلمانوں کی زندگی اجیرن

0
210

نیویارک (پاکستان نیوز) امریکہ میں تارکین کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے جن کو سفید فام افراد ہضم نہیں کر پا رہے ہیں اور آئے دن نسل پرستانہ اور نفرت آمیز واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ، فوکس نیوز نے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم کیئر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ موجودہ ایک سال میں مسلمانوں کے خلاف500کے قریب نفرت آمیز واقعات رجسٹرڈ کیے گئے ہیں ، ہر 100کیسوں میں سے 38کیس مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز واقعات پر مبنی ہوتے ہیں ، مساجد کی بیرونی دیواروں کو نفرت آمیز کلمات سے بھر دیا جاتا ہے ، مسلم کمیونٹی واقعات سے تنگ آ کر آئے روز احتجاج اور ریلیوں کا انعقاد کرتی ہے جس کے دوران ظلم کا یہ سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ امریکہ میں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم کیئر نے اپنی سالانہ رپورٹ کے دوران انکشاف کیا ہے کہ ہر 100رجسٹرڈ کیسوں میں سے 38 رپورٹ اسلام فوبیا کے رپورٹ ہو رہے ہیں ، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس مئی ، جون میں ہونے والے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعے کے موقع پر اسلام فوبیا واقعات بڑی تعداد میں درج کیے گئے ،ایک سال کے دوران مسلمانوں کیخلاف 500نفرت آمیز واقعات رجسٹرڈ کیے جا چکے ہیں ۔ کیئر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نہاد اعوا د نے کہا کہ اسلامو فوبیا واقعات معمول کی زندگی کو بری طرح متاثر کرتے ہیں اور ہم یہ ہر گزبرداشت نہیں کر سکتے ہیں ، مسلم خواتین ،مردوں یہاں تک کے بچوں اور طلبا کی بڑی تعداد کو بھی ان واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے زندگی اجیرن ہوگئی ہے ، مسلم خواتین حجاب میں باہر نکلتے ہوئے ڈرتی ہیںکہ کہیں کوئی نفرت آمیز یا نسل پرستانہ واقعہ پیش نہ آ جائے ، انھوں نے کہا کہ ان حالات میں اعلیٰ قیادت کو اس سنجیدہ مسئلے کے حل کیلئے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ دریں اثنا کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشن کے مطابق میسا چوسٹ میں ہر پانچ مسلم طلبا میں سے تین کو توہین آمیز سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، یوتھ گروپ مینٹور عظیم چودھری نے بتایا کہ انہیں اس بات کو چھپانا پڑتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں کیونکہ مسلم نوجوانوں کے خلاف برے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ، گالم گلوچ کے ساتھ جسمانی تشدد کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جوکہ کسی صورت قابل قبول عمل نہیں ہے ، سکولوں کے سروے کے دوران 33 فیصد مسلم طلبا نے کہا کہ ہمیں اپنی شناخت اور مذہب کو اس لیے چھپانا پڑتا ہے کہ کہیں ہم بھی نفرت آمیز واقعات کا شکار نہ بن جائیں۔مسلم طالب علم مریم نے بتایا کہ میں حجاب اوڑھنے سے قبل سو مرتبہ سوچتی ہوں کہ باہر مجھے کس رویے کا نشانہ بنایا جائے ، مجھ پر آوازیں کسی جائیں گی ، مذہب کو برُا کہا جائے گا۔ 17 فیصد مسلم خواتین طلبا نے رپورٹ کیا ہے کہ ان کے حجاب کو نفرت آمیزی کے دوران کھینچا ، اتارا اور بری طرح نوچا جاتا ہے ، 84 فیصد مسلم طلبا کی آواز کو تعلیمی اداروں میں دبایا جاتا ہے۔کیئر سمیت مسلم تنظیموں نے بائیڈن حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیزی، اسلام فوبیا کے واقعات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے اور اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جائے ۔ کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشن (کیئر ) نے ملک میں بڑھتے ہوئے اسلام فونیا کے واقعات پر تحفظات کا اظہار کیاہے اور اس سلسلے میں پولیٹیکل نمائندوں کو کانگریس میں آواز بلند کرنے کی درخواست کی ہے ، خاص طور پر کیئر کی جانب سے مسلم نمائندہ الہان عمر سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ کانگریس کے فلور پر اسلام فوبیا کے بڑھتے واقعات کو روکنے کے لیے اپنی آواز بلند کریں ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here