اعتراف کرنے میں وقت لگے گا مگر پاکستان کی سیاست کو حقیقی سیاست بنانے میں صحافت کا کردار نمایاں تھا، اس بات کو تسلیم کیا جائے گا، یہ مانا جائے گا کہ بدحال، مسائل کا شکار اس شعبے نے پاکستانی سیاست سے منافقت کے عنصر کو مکمل طور پر ختم نہ کرسکنے کے باوجود اس بڑی حد تک کم کیا۔ سیاست کا یہ روپ مستقبل میں پاکستان کی عوام کے لیے جہاں انتہائی مفید ہوگا ،وہاں طاقت ور ہاتھیوں کو اس پر قدر تشویش بھی ہوگئی۔ہم ماضی کی بات کریں تو میڈیا صرف چند اخبارات کا نام تھا، ان چند اخبارات پر اثر انداز ہونا حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے زیادہ مشکل نہیں تھا مگر اس دور کے میڈیا کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ دونوں اطراف کے ہر طرح کے حربوں کے باوجود سیاست اور سیاست کے کھلاڑیوں بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو کسی نہ کسی طور زیب قرطاس بنائے رکھا۔پرویز مشرف دور میں ٹی وی چینلز صحافتی میدان میں اترے تو سیاستدانوں سمیت ہر شعبہ سے تعلقات رکھنے والے افراد کے خیالات، اعلانات، بیانات اور فرمودات سب کا یوں سمجھ لیجئے کہ زندہ ثبوت تیار ہونے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب بھی کسی نے اپنی لائن بدلنے کی کوشش کی تو ساتھ ہی میڈیا کے آرکائیوز سے جناب کے ماضی کے بیانات کی ویڈیوزکی صورت میں زندہ ثبوت عوام کے سامنے آنے گا، اس کا پہلا شکار خود سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف خود اور ان کی ہمنوا ق لیگ بنی۔ 2008 کا انتخاب ہارنے میں محترمہ بے نظیر کی شہادت کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں کے دوغلے بیانات بھی ان کی ہار کا سبب بنے۔ دوسری سب سے بڑی مثال شیخ رشید کا ن لیگ کے ایک عام ورکر سے راولپنڈی الیکشن ہارنے کی موجود ہے۔پھر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی درگت بھی اسی میڈیا کے ذریعے انتخاب میں ان کے بیانات کے ذریعے لگائی گئی، غرض کہ جب ان جماعتوں کے سیاست دان اپنے ماضی کے بیانات سننتے تو شرم سے پانی پانی ہوجاتے، پھر وقت کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں کو یہ سمجھ آنے لگی کہ اب ان کی کہی ہر بات کسی نہ کسی کمیرے کی میموری میں محفوظ ہورہا ہے، جس نے ان کو مجبور کیا کہ وہ سیاست منافقت کا دوسرا نام ہے جیسے بے ہودہ طریقوں سے دور ہٹنے لگے اور اب صورت حال یہ ہے کہ ہر روز پارٹیاں اور بیانات بدلنے والے آرام سے ٹک کر ایک نظریے یا ایک پارٹی سے وابستہ رہنے پر مجبور ہیں۔پرویز مشرف کے چہیتے اور نواز شریف کے خلاف بولنے والے دانیال عزیز اور طلال چوہدری نے نواز شریف کے اتنے گن گا دیے اور پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف کے خلاف اتنی بیان بازی کردی کہ ان سیاسی پارٹی بدلنا درحقیقت اپنی سیاست کو تباہ کرنے کے مترادف ہوگا۔اب اسی صورت حال کا سامنا تحریک انصاف میں بیٹھے ان لوٹوں کو بھی ہے جنہیں مستقبل نظر آرہا ہے مگر کوئی چارہ یا بس نہیں چل رہا۔کوئی بھی ان اپنے بیانات، خیالات، فرمودات کو بدلے گا تو وہ اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی مارے گا اور اس طرز سیاست کا فائدہ یقینا عوام کو اس صورت میں ہوگا کہ جب آپ کو یقین ہوجائے گا، اب سیاست کرنی ہے تو لوٹا کریسی سے دور رہنا پڑے گا اور کام کرنا پڑے گا تو اس میں عوام اور ان سیاستدانوں کا بھلا ہوگا۔ اس لیے میرا یہ ماننا ہے کہ میڈیا نے اس دوغلے سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو قابو کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
٭٭٭