جارحانہ پالیسی !!!

0
19
شبیر گُل

اآجکل پوری دنیا کی نظریں ایک طرف نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ اور لاس اینجلس میں لگنے والی خوفناک آگ،اسکی تباہیوں اور ویرانیوں پر ہے ۔نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کی حلف برداری پر خطاب میں کی گئی باتیں آئندہ دنیا میں کیا تبدیلیاں لاتی ہیں۔آئندہ چند ماہ دنیا کے حالات نئی کروٹ لے سکتے ہیں ۔ عالمی سطح پر نئی صف بندیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔بین الاقوامی ماہرین ،مبصرین اور دانشور ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیز پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ ٹرمپ چونکہ بھاری اکثریت سے جیتے ہیں ۔ نوجوان امریکنز کا ووٹ بینک بھی اسکے ساتھ ہے۔سینٹ، کانگریس اور سپریم کورٹ میں ریپبلکنز کی اکثریت ہے۔ اس لئے صدر ٹرمپ کو اپنے ایجنڈے اور پالیسی پر عمل کرانے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔فلسطین میں جنگ بندی کا آغاز ہو چکا۔ افغانستان کی امداد بند کرنے کا کہہ دیا گیا اور افغانستان سے بھاری مقدار میں امریکن اسلحہ کی واپسی کا بھی کہہ دیا گیا ہے۔صدر ٹرمپ نے آتے ہی درجنوں ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کردئیے ہیں۔صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ میرے ساتھ عوام کی طاقت ہے جس نے مجھے بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا ہے۔ایک بار پھر امریکہ میں اکانومی بہتر ہوگی۔ جاب کے مواقع پیدا ہونگے۔ امریکی مصنوعات اور آٹو موبل انڈسڑی کو مضبوط کیا جائے گا تاکہ امریکنز کے لئے نئی جابز کے کے مواقع مل سکیں۔ مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے گا۔ سرحدوں کی خفاظت کی جائے گی۔ امریکہ کو دفاعی اور معاشی طور پر مضبوط کیا جائے گا۔لیکن ! پاکستان میں قوم کی نظریں ججز اور جوڈیشل سسٹم پر ہیں،فوجی اسٹیبلشمنٹ، موجودہ حکومت اور اپوزیشن کیطرف ہیں ۔آج سے ستر سال پہلے ھم جہاں کھڑے تھے ۔آج بھی وہی کھڑے ہیں۔مسلمانوں کی بڑی اکثریت لاس انجلس کی آگ کو اسرائیل اور امریکہ کی غزہ میں ہولناک بربرئیت پر ، اللہ رب العزت کی طرف سے وارننگ سے تشبیہ دیتی ہے۔قارئین کرام ! نبیوں کی سرزمین فلسطین کو جب یہودیوں کو بیچا جارہا تھا،جب عراق کو لاکھوں انسانوں کی مقتل گاہ میں تبدیل کردیا گیا۔جب لیبیا،مصر اور افغانستان کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کیا گیا،شام کو ملیا میٹ کر دیا گیاتو کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس ساری تباہی اور بربادی میں جتنا قصور کفار کاہے ۔ اس سے کہیں زیادہ ان امریکی غلاموں کا ہے جو انہیں اپنے ممالک میں اپنے ہی عوام کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔موجودہ دور میں پاکستان میں بھی وہی کھیل کھیلا جارہا ھے۔ اس کھیل میں ھم سبھی شامل ہیں۔ہماری حالت اس فاخشہ عورت جیسی ہے جو اپنا جسم بخوشی بیچتی ہے،چیختی، چلاتی اور واویلا بھی کرتی ہے۔ہم کبھی روٹی ،کپڑے اور مکان کے نام پر ضمیر کا سودا کرتے ہیں ، کبھی تبدیلی کے نام پر اور پھر کچھ عرصہ بعد جوتے اٹھا لیتے ہیں۔کبھی ہم نیا پاکستان، کبھی سب سے پہلے پاکستان ۔ کبھی اسلام کے نام پر کبھی احتساب کے نام پر اور کبھی تبدیلی کے نام پر بیووقوف بنتے ہیں ۔فاحشہ عورت کیطرح اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں،ہم نے ضمیر کو ایک تجربہ گاہ میں بدل لیا ہے۔کیا ہمیں نہیں معلوم کہ یہ وہی چہرے ہیں جو نام اور پارٹیاں بدل بدل کر سامنے آتے ہیں۔ اسمبلیوں میں جن کوہم بھجتے ہیں ۔ وہ کڑوڑوں، اربوں اور کھربوں میں کھیلتے ہیں جنہیں مہنگائی ،بجلی، پانی کے بلوں اور بیروزگاری سے کوئی غرض نہیں، قیام پاکستان میں آج تک ڈاکوں کا راج ہے۔ملک کی سلامتی ،اداروں اور قومی معاملات پر اتحاد کے بغیر ناممکن ہے۔نہ اپوزیشن کو دبانے سے معاملات حل ہوتے ہیں اور نہ اداروں کو کمزور کرنے سے مشکلات میں کمی۔ ڈیموکریٹک سوسائٹی میں فوج کا سیاسی معاملات میں عمل دخل ملک کو کمزور کرتا ہے اور سیاسی گماشتوں کا فوج کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے سے ملک کمزور ہوتاہے۔بہتر برس میں آدھا عرصہ ڈکٹیڑ حکمران رہے اور آدھا عرصہ جرنیلوں کے حمایت یافتہ حکمران رہے۔جرنیل اور انکے سیاسی بغل بچے عوام کی قبولیت کے بغیر ، خفیہ انڈرسٹینڈنگ سے اقتدار میں آتے ہیں اور دوسری طرف ، اقتدار کے حصول کے لئے جرنیلوں اور ججز کی ایکسٹینشن کے وعدے،جب دونوں طرف کی خفیہ انڈرسٹینڈنگ سے تجاوز کیا جائے تو وہاں معملات بگڑ جاتے ہیں۔ جس ک نقصان ملک اور عوام کو اٹھانا پڑتا ھے۔آئین سے ماورا اس دونمبری کو خفیہ رکھا جاتا ھے تاکہ عوام میں بھرم رہ سکے۔آج تک جتنے بھی حکمراں یا جرنیل آئے ان کا نہ تو ملکی نظریات سے کو تعلق تھا اور نہ یہ پاکستان کے وفادار ہیں۔ انکے تجربوں نے پاکستان کو مشکلات اور مصائب میں مبتلا کئے رکھا۔ بد نیتی اور جھوٹ کہاں بھی ھو گا۔ خیروبرکت ناپید ھوا کرتی ہے۔کل جو فوج کو گالیاں دیتے تھے ۔ آج وہ حکمران ھیں اور جو آج انہیں گالیاں دے رہے ہیں ۔جرنیلوں سے خفیہ ملاقاتوں کے بعد وہ کہاں کھڑے ہیں ؟دوسری طرف ایک جماعت کو فتنہ خوارج سے تشبیہ کے بعد مذاکرات کونسے اخلاقیات کے ترجمان ہے۔دونوں طرف کی کی سختی سے عام کارکن کی زندگی حیران ھوئی ۔ ار فوجی جوانوں کو گالیاں اور نفرت سمیٹنا پڑی۔یہ بازو پہلے کھلنے چاہئے تھے ۔ تاکہ ملک اور ادارے کمزور نہ ھوتے۔قارئین ! اگر آپ عقل و شعور رکھتے ہیں تو پارٹی وابستگی کے بغیر انداہ کرسکتے ہیں ۔ نہ جرنیل ملک کے وفادار ہیں اورنہ ہی یہ سیاسی کھوتے۔ایک طرف اقتدار کا لالچ اور دوسری طرف ایکسٹینشن نے عام آدمی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ہم اپنے ریجن میں اکانومی میں ہمسایہ ممالک سے پیچھے ہیں یا ہمارا ملک مقروض ہے تو اسکی وجہ ہمارے جرنیل اور سیاستدان ہیں ۔ہم آئی ایم ایف کی غلامی یا چنگل میں پھنسے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ ہمارے کرپٹ ، بددیانت سیاستدان ہیں۔اسلحہ کی دوڑ میں ہم ہمسایہ ممالک سے اس لئے آگے ہیں کیونکہ وہاں دیندار،محب وطن انجینئر ز ہیں ،نظریاتی سائنسدان ہیں ۔کاٹن انڈسٹری میں تیسرے سے ساتویں نمبر پر آنا قابل افسوس ہے۔گندم، چاول،شوگر اور اجناس میں ھم خود کفیل ہیں لیکن شوگر، گندم اور رائس مافیا ، انچیزوں کو دبئی ایکسپورٹ کر کے دوبارہ امپورٹ کرتا ہے۔یہ کرپٹ عناصر دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہے ہیں۔جب جرنیل، ججزاور اسمبلیوں میں بیٹھے لوگ کرپٹ ہوں تو نہ آپ لا کو امپلیمنٹ کر پاتے ہیں اور نہ کرپش کی تھام۔شرابی کیسے کہہ سکتا ہے کہ شراب حرام ہے۔ چور کیسے چوروں پر ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ بددیانت اور رشوت خوروں کو جائز اور حلال سے چڑ ھ ہے ۔ اس لئے ملک کے ہر ادارے میں کرپشن اور بدعنوانی ہے۔ایف بی آر، کسٹم، ایکسائز و انکم ٹیکس میں خرامخوروں کی فوج ظفر موج ھے۔ امپورٹ ایکسپورٹ میں ڈاکو راج ہے۔پاکستان میں کرپشن ، بدعنوانی، چوری اور کرپشن کا علاج صرف اور صرف جماعت اسلامی ہے۔ کان آپ سیدھا پکڑیں یا الٹا ، کرپٹ اور بدمعاشیہ سے چھٹکارا صرف جماعت اسلامی سے ھو سکتا ہے۔سیاسی بدمعاش گھوم پھر کر کبھی پی پی کی، کبھی ن لیگ، کبھی پی ٹی آئی اور کبھی ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے عوام کو بیووقوف بناتے ہیں۔اپنے اپنے علاقے کے ایم این اے، ایم پی اے اور سینٹر کی ہسٹری چیک کریں آپ کو خود اندازہ ھو جائے گا۔ کہ پارٹیاں بدلنے سے سسٹم تبدیل نہیں ھوا کرتا۔ یہ مافیا اسی نظام کی بینفشری ھے ۔ اس کو بالواسطہ یا بلاواسطہ سپورٹ کرتے ہیں۔ جو اقتدار سے باہر ہوتے ہیں فوج کو گالیاں دیتے ہیں۔ انہی کے کندھوں پر اقتدار میں پہنچتے ہیں۔ اقتدار ہٹنے پر انہی گندھوں سے ناآشنائی ، عجیب تماشا ھے۔ان سب نے ملکر ملک کو قوم کو اندھیروں میں دھکیلا ھے۔قارئین ! ان کو سمجھیں ۔ ان سب نے اقتدار کے مزے لئے ہیں۔ اور عوام مشکلات کا شکار ھے۔انکی چرب زبانی ، گالم گلوچ کی سیاست نے سیاسی دشمنیوں میں بدل دیا ھے ۔ جو ڈیموکریٹک سوسائٹی کے لئے خطرناک ھے۔پاکستان ایک فلم اسٹوڈیو کی طرح ہے جہاں فلمیں ایک ہی اسکرپٹ کے گرد گھومتی ہیں۔ ولن (جج) اور دلہن کا باپ، جو اسکرپٹ رائٹر بھی ہے (اسٹیبلشمنٹ)، ہمیشہ کہانی کا حصہ رہتے ہیں۔کہانی کچھ یوں ہوتی ہے،پہلے محبت، پھر شادی، پھر جھگڑے، اس کے بعد طلاق، اور پھر ولن کی انٹری پھر حلالہ ہوتا ہے،پھر بھی اخر میں سب مل جل کر خوشی سے نہیں رہتے۔مزے کی بات سب کا اسکرپٹ معلوم ہے مگر پھر بھی سیمنا کے تماشائی(قوم ) اپنے اپنے ہیرو کی محبت میں ایک دوسرے پر جملے بازی سنگ باری کرتے کرتے نفسیاتی مریض بن چکے ہیں،جو لوگ پی ٹی چھوڑ کر پریس کانفرنس کرتے رہے ہیں۔مستقبل میں کس وہ اخلاقی کرے سے سامنا کرینگے۔نہ جرنیل ملک میں رہتے ہیں اور نہ ان سیاسی چمگادڑوں مفادات۔ دونوں طرف ذاتی مفادٹ کی جنگ نے ملک کو مفادات کی بھینٹ چڑھا رکھا ھے۔ کھوتے عوم ے دماغ کی اصل والی منزل خالی ھے۔ ایسی لیے بدمعاش جرنیل اور چور اچکے مسلط رہتے ہیں ۔ آزمائے ھوں سے بہتر ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان پر بھروسہ کیا جائے۔ جو دیانت اور خدمت کی علامت ہے۔مجھے جماعت اسلامی کا کارکن ہونے پر فخر ہے ،جماعت اسلامی پاکستان کی ایک منفرد سیاسی و دینی جماعت ہے، اس جماعت کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی دیانت داری اور شفافیت ہے۔ ملک کے سیاسی افق پر جہاں دیگر جماعتیں کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات سزاں کا شکار رہتی ہیں، وہیں جماعت اسلامی نے اپنی ساکھ کو ہمیشہ پاکیزہ اور کرپشن سے پاک رکھا ہے۔جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنان اسلامی اصولوں پر کاربند رہنے اور عوام کی خدمت کو عبادت سمجھنے کا عزم رکھتے ہیں۔ اس جماعت کا مقصد ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ اور ایک عادلانہ معاشرے کا قیام ہے،اللہ کا شکر ہے کہ جماعت اسلامی اور ان کی قیادت پر آج تک کوئی بھی کرپشن کا الزام ثابت نہیں ہوا۔ اس کی وجہ قیادت کی مخلصی، دیانت داری اور عوام کی خدمت کا بے لوث جذبہ ہے۔ جماعت کے منصوبے اور فلاحی کام عوام کی خدمت کے بہترین مظاہر ہیں، جن میں تعلیم، صحت اور دیگر سماجی خدمات شامل ہیں۔جماعت اسلامی کا یہ کردار ہمارے لیے باعثِ فخر ہے اور میری دعا ہے کہ جماعت اسلامی آئندہ بھی اپنی اصولی سیاست اور دیانت داری کے ساتھ عوام کی خدمت کرتی رہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here