بلا عنوان!!!

0
90
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آج اپنے تسلسل سے ہٹ کر اپنے ایک قلمکار دوست کا مضمون پیش کررہا ہوں اس کو پڑھ کر ذندگی کی حقیقت آشکار ہوتی ہے ہم سوچ کچھ رہے ہوتے ہیں اور ہوتا کچھ اور ہے یہی وجہ ہے کہ انسان کو نیکی جتنی ہوسکے کرنے پر ہی توجہ مرکوز رکھنی چاہئیے اور مثبت سوچ و فکر اور کردار سے اللہ اور اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ذندگی گزاری جائے نہ معلوم کہ کب یہ ذندگی کی شام ڈھل جائے اب آپ یہ کہانی پڑھئیے اور اپنی آرا سے آگاہ کیجئیے وعدہ نہیں کرتا کوشش کروں گا اسم اعظم کا پانچواں حصہ اگلے ہفتے آپ کی نظر کردوں ۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمہاری آنکھ اس جھٹکے سے کھلتی ہے جو زندگی تمہیں جگانے کے لئے دیتی ہے، تم ہڑبڑا کے اٹھ جاتے ہو۔ گزشتہ 8 سال سے میری زندگی سسپنس سے بھرپور کہانی بنی ہوئی ہے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ انوکھی کہانیوں کا پیچھا کرتے کرتے میں خود ایک انوکھی کہانی کے چنگل میں پھنس جاں گا۔سن 2014 کے وسط کی بات جب یہ سن کر کہ میرے دائیں گال میں کینسر ہے، میرے پیروں تلے زمین نکل گئی ۔ لیکن چونکہ اپنے رب پر بھروسہ تھا ۔ اس لئے خود کو سنبھالا۔بارہ گھنٹے طویل آپریشن اور پھر اس کے بعد ریڈیو تھراپی کے جاں گسل مراحل ۔زندگی کی گاڑی کی رفتار پھر تیز ہوگئی ۔ میں نے اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی کی ۔ پھر میرے رب نے مجھے عظیم سعادت سے نوازا ۔ میں نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ فریضہ حج ادا کیا ۔اس کے بعد میں سمجھا تھا کہ کھیل ختم ہوگیا اور برا وقت گزر گیا ۔ لیکن کھیل تو اس کے بعد شروع ہوا ۔ درد ۔ درد اور درد ۔ رگ و پے میں اترتا درد اور میں بس دوائوں اور تجربوں کے کھیل کا ایک حصہ بن کر رہ گیا۔یہ میرا کھیل نہیں تھا بھائی، میں تو ایک فل اسپیڈ والی بلٹ ٹرین میں سوار تھا، میرے تو خواب تھے، کچھ کام تھے جو کرنے تھے، کچھ خواہشیں تھیں، کچھ ٹارگٹ تھے، کچھ تمنائیں تھیں، آرزوئیں تھیں، اور میں بالکل ان کے درمیان لٹکا ہوا تھا۔ اب کیا ہوتا ہے کہ اچانک پیچھے سے کوئی آ کر میرے کندھا تھپتھپاتا ہے، میں جو مڑ کر دیکھتا ہوں تو یہ ٹکٹ چیکر ہے؛ تمہارا اسٹاپ آنے والا ہے بابو، چلو اب نیچے اترو۔ میں ایک دم پریشان ہو جاتا ہوں؛ نہیں نہیں بھائی میاں، میری منزل ابھی دور ہے یار۔ اور پھر ٹکٹ چیکر مجھے سمجھانے والے انداز میں کہتا ہے؛ نہ، یہی ہے، اسٹاپ تو بس یہی ہے، ہو جاتا ہے، کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے۔اس اچانک پن میں پھنس کے مجھے سمجھ آ گئی کہ ہم سب کس طرح سمندر کی بے رحم لہروں کے اوپر تیرتے ایک چھوٹے سے لکڑی کے ٹکڑے کی طرح ہیں۔ بے یقینی کی ہر بڑی لہر کے آگے ہم تو بس اپنے چھوٹے سے وجود کو سنبھالنے میں لگے رہتے ہیں۔ نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔ ہرا سمندر گوپی چندر، بول میری مچھلی، کتنا پانی، اتنا پانی! تو بس پانی، بے رحم پانی، وقت کی موجوں کے تھپیڑوں میں تیرتی نامعلوم ہستی اور پانی!
اس مصیبت میں پھنسنے کے بعد ایک دن جب میں ڈرا سہما ہوا ہسپتال جا رہا تھا تو میں نے اپنے بیٹے سے ایویں بڑبڑاتے ہوئے کہا کہ مجھے اس وقت اپنے آپ سے کچھ نہیں چاہئے، ہاں بس اتنا ضرور ہے کہ یار اس عذاب سے میں اس طرح نہ گزروں جیسے اب اس وقت گزر رہا ہوں۔ مجھے اپنا سکون اپنا اطمینان واپس چاہئے۔ یہ جو ڈر، جو خوف، جو پریشانیاں میرے کندھوں پہ چڑھی بیٹھی ہیں میں انہیں اٹھا کے پھینک دینا چاہتا ہوں، میں ایسی قابل رحم قسم کی ہونق حالت میں اب مزید نہیں رہنا چاہتا۔ اس بیماری کا شکار ہونے کے بعد میری واحد خواہش یہی تھی۔ اور پھر اپنی تکلیف کی طرف میرا دھیان چلا گیا۔ مطلب اتنے عرصے سے میں بس اپنی تکلیف جھیل رہا تھا، برداشت کر رہا تھا، درد کی شدت کا احساس کر رہا تھا، لیکن اس پوری مدت میں کوئی بھی چیز اسے ختم نہیں کر پا رہی تھی۔ کوئی ہمدردی، پیار بھرے بول، کوئی ہمت بندھانے والی بات، کچھ بھی نہیں! اس وقت پتا ہے کیسا لگتا تھا؟ جیسے پوری کائنات صرف ایک چیز کا روپ دھار چکی ہے ، درد، خوفناک درد۔ وہ درد جو ہر چیز سے بڑا ہے!
اب جب سبھی بے یقینی کے بہا میں ہیں تو میں کیا اور میری بے یقینی کیا؟ مجھے تو بس اپنی باقی رہ جانے والی طاقت کو سنبھالنا ہے اور اپنے حصے کا کھیل اچھے سے کھیلنا ہے، دیٹس اٹ! تو بس اس ایک لمحے کے بعد مجھے سمجھ آ گئی۔ میں جان گیا کہ نتیجہ جو بھی نکلے مجھے اس حقیقت کو ماننا ہو گا۔ ادھر سب کچھ ایسا ہی ہے۔ چاہے میرے پاس چند لمحے بچے ہیں، چاہے چند ماہ یا چند مزید سال، سب کچھ ایک طوفانی لہر میں ہے۔ اس کے بعد تمام خدشے، تمام ڈر، تمام خوف، تمام پریشانیاں سب کچھ دھندلے ہوتے گئے اور میرا دماغ ان سب سے خالی ہو گیا۔
ساری عمر میں پہلی بار تب مجھے اندازہ ہوا کہ آزادی کا مطلب واقعی میں ہے کیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے مجھے کوئی بڑی کامیابی ملی ہے۔ جیسے زندگی کا جادو بھرا ذائقہ مجھے پہلی بار چکھنے کو ملا ہے اور یہ سب میرے جسم کی ایک ایک پور میں اتر چکا تھا۔ اس پوری بیماری کے دوران لوگ میرے لیے دعائیں کرتے رہے ہیں، لوگ جنہیں میں جانتا ہوں، لوگ جنہیں میں نہیں بھی جانتا، وہ سب مختلف جگہوں پہ، مختلف ٹائم زونز میں رہتے ہوئے میرے لیے دعائیں کرتے رہے اور مجھے لگا کہ ان کی سب دعائیں مل کے ایک ہو گئیں۔
ایک بڑی سی طاقت، جیسے ایک لہر کی، بڑی سی موج کی طاقت ہوتی ہے ، وہ بس ریڑھ کی ہڈی سے میرے اندر تک اتر گئی اور میری کھوپڑی کے اندر اس نے اپنی جڑیں بنا لیں۔ اب وہ ادھر اگتی رہتی ہے، کبھی ایک چھوٹا سا امید کا پودا، کبھی ایک پتا، کبھی ایک نرم سا تنا۔ میں اسے دیکھتا ہوں اور خوش ہوتا رہتا ہوں۔ اتنی ساری دعاں کے نتیجے میں اس پہ جو بھی پھول اگتا ہے، جو بھی نئی ٹہنی نکلتی ہے، جو بھی پتا آتا ہے، وہ مجھے صرف خوشگوار سی حیرت اور خوشیاں دیتا ہے۔ تو وہ جو لکڑی کا ننھا سا ٹکڑا ہے نا، اسے کیا ضرورت کہ وہ پانی کے بہا کا رخ بدلنے کی کوشش کرے؟ اسے یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ہم سب قدرت کی گود میں بیٹھے ہیں جو ہمیں ہلکے پھلکے جھولے دے رہی ہے، نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کچھ بھی کم، دیٹس اٹ۔
مجھے اس کہانی کو پڑھ کر شدت سے احساس ہوا صحت سے بڑی کوء نعمت نہیں اور نہ ہی کوء دولت ہوسکتی ہے اللہ پاک آپ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور صحت و سلامتی عطا فرمائے آمین ۔ ملتے ہیں اگلے ہفتے
خیر اندیش
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here