قوم کا مرثیہ!!!

0
124
جاوید رانا

قارئین کرام! خاکسار 4 عشروں سے بھی زیادہ عرصے سے امریکہ میں مقیم ہے لیکن دیگر پاکستانیوں کی طرح قلب و روح وطن عزیز پاکستان میں ہی اٹکے رہتے ہیں، دھرتی ماں کے حوالے سے کوئی بھی بُری خبر جھنجھوڑ کے رکھ دیتی ہے۔ آپ نے اندازہ کر لیا ہوگا کہ بسااوقات میری تحریروں کا محور پاکستان ہی ہوتا ہے خصوصاً ابتلاء کے ماحول و معاملات میں میری بے چینی ناقابل برداشت ہوتی ہے اور میں اپنے جذبات و احساسات کو قرطاس پر بکھیرنے پر مجبور ہو جاتا ہوں، میرے وطن کو گزشتہ کچھ عرصے سے جن حالات نے گھیر رکھا ہے ان کے حوالے سے میرے کالم آپ کے مطالعہ اور تبصروں کے ناطے میرے احساس کی توثیق کرتے نظر آتے ہیں کہ وطن کی محبت اور موجودہ حالات سے ہر پاکستانی (خصوصاً بیرون ملک پاکستانی) انہی احساسات کا حامل ہے جن کا اظہار میری تحریروں میں ہوتا ہے۔
تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ جب بھی کسی ملک، قوم میں سیاسی ابتری، معاشی نا ہمواریاں اور طوائف الملوکی حد سے بڑھ جائے تو اس کی سلامتی و استحکام اور خوشحالی کو خطرات حد سے زیادہ لاحق ہو جاتے ہیں اور نہ صرف داخلی طور پر بلکہ بیرونی عوامل کے حوالے سے بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ ”ایک محاورے کے مطابق بوڑھے اور کمزور شیر کو دیکھ کر کُتے بھی اس پر غراتے اور حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے ہیں”۔ الحمد اللہ کہ اپنی عسکری قوت اور وسائل کے باعث وطن عزیز کو بیرونی دشمنوں اور آلہ کاروں سے کوئی خطرات نہیں ہیں لیکن حالیہ سیاسی عدم استحکام و انتشار اور معاشی دُشواریوں کے تناظر میں ہماری دشمن قوتوں اور ان کے ہرکاروں کو اپنے مکروہ و پاکستان دشمن ایجنڈے پر عمل کرنے کی ناپاک جرأت نظر آرہی ہے اس کا ایک مظاہرہ گزشتہ ہفتہ پاک افغان بارڈر پر چمن کے علاقے میں افغان بارڈر فورس کے حملے اور فائرنگ و گولہ باری کی صورت میں سامنے آیا۔ اس ناقابل برداشت واقع کی تفصیل سے قارئین میڈیا کے توسط سے آگاہ ہو چکے ہیں اور یہ بھی جان چکے ہیں کہ ہماری بہادر افواج نے افغانیوں کو دُھول چٹا دی لیکن سوچنا یہ ہے کہ افغان فورسز کو پاکستان کیخلاف حملہ آور ہونے کی جرأت کیونکر ہوئی جبکہ چند دن قبل ہی ہمارے موجودہ سپہ سالار اگلے مورچوں پر دورے کے دوران پاکستان کیخلاف کسی بھی اقدام کا منہ توڑ جواب دینے کا دو ٹوک اعلان کر چکے تھے۔ وہ کون سے عوامل و محرکات ہیں جن کی بناء پر افغان بارڈر فورسز کو اس اقدام کی ہمت ہوئی۔
افغان قوم اور افغانستان کی پاکستان نے روس امریکہ جنگ سے امریکہ کے واپس جانے اور طالبان کی موجودہ قیادت کے قیام و تعاون اور چار عشروں سے 40 لاکھ افغان مہاجرین کی پاکستان میں رہائش، روزگارو کاروبار کے بوجھ کو برداشت کرنے کے باوجود افغانیوں میں پاکستان کیخلاف بُغض و عناد کھیل کے میدانوں سے لے کر سیاسی، سفارتی، تجارتی، علاقائی غرض ہر سطح پر زہر کی طرح بسا ہوا ہے۔ صرف یہی نہیں طالبان حکومت کے پاکستان یا ہمسایہ ممالک کیخلاف افغان حکومت سرزمین استعمال نہ کئے جانے کے اعلان کے باوجود ٹی ٹی پی کی دہشتگردانہ سرگرمیاں تسلسل سے جاری ہیں اور آئے دن ان کی سرکوبی و خاتمے کی جدوجہد میں ہمارے عسکری جوانوں و شہریوں کو شہادت کا نذرانہ پیش کرنا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا افغان حکومت کے بظاہر پاکستان سے بہتر تعلقات کے دعوئوں کے باوجود پاکستان دشمن کردار و عناصر کس بل بوتے پر خصوصاً ٹی ٹی پی دہشت و نفرت انگیزی کر رہے ہیں۔ قرائن بلکہ حقائق اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ طالبان حکومت کے آنے کے بعد اپنا بوریا بستر گول کر جانے والی راء اور این ڈی ایس پس پردہ پاکستان کیخلاف شیطانی منصوبے بُننے میں مصروف عمل ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات، معاشی کمزوری اور عوام میں انتشار و مایوسی کی صورتحال ان کے پاکستان دشمن مکروہانہ ایجنڈے کی تکمیل کیلئے بہتر موقع ہے۔
وطن عزیز کے حالات پر نظر ڈالیں تو سوائے مایوسی، نا امیدی کے کچھ نظر ہیں آتا۔ سیاسی پرخاش و نفرت کا طُوفان اُٹھا ہوا ہے۔ سیاست ذاتی عناد، لغزشوں اور الزام تراشیوں کی محور ہے لٹیروں پر عنایات کی جا رہی ہیں، مخالفین کو آڈیو لیکس، بے ایمانیوں، گھڑیوں اور نام نہاد ریاست دشمنی کے الزامات لگا کر مطعون کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ آئین و انتظامی ادارے اور انصاف دینے کے اداروں پر انگشت نمائی کی جا رہی ہے حکومتی اشرافیہ ملک کے معاشی و معاشرتی حالات پر توجہ دینے کے برعکس عوام کے مقبول ترین رہنماء کو نا اہل و سیاسی منظر نامے سے باہر کرنے کیلئے ہر حربہ آزمانے کیلئے کمر بستہ ہے۔ 75 سالہ اعظم سواتی پر بلوچستان ہائیکورٹ سے رہائی کے حکم کے باوجود سندھ لیجاکر تھانوں اور عدالتوں میں شہر شہر دربدر کر کے ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری ہے، لگتا ہے کہ سندھ زرداری کا رجواڑہ ہے۔ جہاں ریاست و مملکت کا کوئی اختیار نہیں۔ عوام ایک جانب مہنگائی، عدم روزگار اور زندگی کی سہولتوں سے محروم ہیں تو دوسری جانب بڑھتے ہوئے جرائم سے خوفزدہ ہیں، غرض نا امیدی، سیاسی انتشار کی فضاء نے وطن عزیز کو ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں سکون، امن، مسرت و خوشحالی محض ایک خواب ہے اور ہر طرف مایوسی، عدم اطمینان، کے باعث قوم وطن کے حوالے سے مرثیوں، نوحوں اور ماتم کرنے پر مجبور ہے۔
موجودہ درآمدی حکومت کے گزشتہ آٹھ ماہ میں جو کچھ ہوا ہے وہ کسی بھی طرح ملک و قوم کے مفاد میں نہیں، تباہی کا راستہ ہے۔ پاکستان کی بہتری کیلئے ضروری ہے کہ ملک کے تمام ادارے ایک پیج پر ایک ہی مقصد یعنی حالات کی بہتری، عوام کی خوشحالی و عوامی رائے کو مقدم رکھتے ہوئے سیاسی و معاشی استحکام کو یقینی بنائیں ورنہ قوم کے مقدر میں مرثیہ و ماتم ہی ہوں گے اور پاکستان کے ظاہری و باطنی دشمن اپنی مکارانہ حرکتوں سے پاکستان کو ضرر پہنچاتے رہیں گے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here