زندگی کی آزمائشوں میں شکر ہے اتنا تو ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے جب تک جان میں جان ہے مشکلات اور آزمائشوں سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی ہے ،اس لیے اگر ہم زندگی میں آنے والی آزمائشوں اور مشکلات کو منفی انداز میں نہ لیں تو یہ ہمارے لیے بہتر ہے۔مثبت رویہ آنے والی مشکلات کو ٹالتا تو نہیں ہے مگر اسے سہل ضرور بنا دیتا ہے ورنہ ہوتا یہ ہے کہ جس ماحول میں ہم رہ رہے ہوتے ہیں وہ کڑوا اور کسیلا ہو جاتا ہے ،منفی رویہ بے چینی دور نہیں کرتا بلکہ پریشانی کو مشقت اور ناامیدی میں بدل دیتا ہے، آزمائش میں بھی شکر کے عنصر کو نہیں بھولنا چاہئے، ہمارے دین نے بھی ہمیں یہی سکھایا ہے کہ ہر تنگی کے بعد آسانی ہے۔ ہمارے بڑے بھی اکثر مشکلات پریشانی کے وقت تسلی دینے کے لیے یہ جملہ کہا کرتے تھے کہ شکر کرو -اس سے بھی برا ہو سکتا تھا ،اللہ نے بچا لیا ہمارے اسلاف کی نصیحت اور تربیت یہی ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا نچوڑ بھی یہی ہے چاہے آنکھوں سے آنسوبہتے رہیں مگر زبان سے الحمدللہ ہی کا کلمہ نکلے گاجس میں فائدہ انسان کا ہی ہوتا ہے، مشکلات میں برے سے برا انسان بھی اللہ کی طرف پلٹتا ہے ،اپنے حساب سے ہی سہی لیکن اتنا ضرور ہے مشکلات میں ارد گرد کی نعمتوں کا احساس ہوجاتا ہے لہذا ارادہ کریں کہ ہر مشکل پر صبر ،،شکر کے ساتھ کریں گے جتنا علم ہم سب کے پاس ہیاگر ہم اس کو سنبھال کر رکھنے کے بجائے عمل میں لانا شروع کر دیں تو انشااللہ ہم سب کے لئے یہ آسان ہو جائے گا کیوں کہ ہم سب کو یہ باتیں معلوم ہیں صرف عمل کرنے کی ضرورت ہے جب انسان ان کو اپنا لیتا ہے تو اس کی کردار میں تبدیلیاں نظر آنے لگ جاتی ہیں شکرگزار انسان کی کچھ نشانیاں ہوتی ہیں اس کی صحبت سے ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ اس کے اندر شکر گزاری ہے۔ شکر گزاردوسرے لوگوں کیعیب نہیں بیان کرتا شکرگزار انسان اپنی مشکلات کا رونا دوسروں کے آگے نہیں روتا غیبت نہیں کرتا-حالات جیسے بھی ہوں صرف مشکل پر گفتگو نہیں کرتا-شکر گزار انسان کے پاس جو بھی بیٹھتا ہے وہ پر سکون ہو جاتا ہے ،چاہے چند لمحوں کے لیے ہی اس کے پاس بیٹھے ۔شکرگزار انسان ناامید نہیں ہوتا۔ شکر گزار انسان وہ ہوتا ہے جس پر لوگ بھروسہ کر سکتے ہیں۔ ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے اندر یہ صلاحیت پیدا ہویا کم از کم ہمارے ارد گرد جو لوگ رہتے ہیں ان کے اندر یہ خوبیاں ہوں لیکن یہ ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے کہ ہم دوسروں کے اندر یہ خوبیاں پیدا کرسکیں لیکن یہ ہمارے اختیار میں ضرور ہے کہ ہم اپنے اندر ان خوبیوں کو پیدا کرنے کی پوری کوشش کریں لہٰذا اللہ نے جو مہلت زندگی ہمیں دی ہے، ہمیں آخری وقت تک اس کی کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں۔ دوسروں میں خامیاں تلاش کرنے کی بجائے ضروری ہے کہ ہم اپنی ذات کو پہلے درست سمت کی جانب گامزن کریں، دوسروں میں برائیوں کی نشاندہی سے قبل اپنی ذات میں موجود خامیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کو درست کرنے کی کوشش کریں، جب انسان اللہ تعالیٰ کی رضا میں خوش رہنا سیکھ لیتا ہے تو پھر تمام مشکلات اس کے لیے بے معنی ہو جاتی ہیں ، اور ایسے میں اللہ تعالیٰ کی مدد بھی اس کے شامل حال ہو جاتی ہے ۔بس ہمیں چاہئے کہ غمی ، خوشی، دُکھ، ہر لمحے میں مالک کا شکر ادا کرتے رہیںکیونکہ اللہ تعالیٰ وہ دیکھ رہا ہوتا ہے جوانسان کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے ، وہ بندے کے لیے وہی چاہتا ہے جوکہ اس کے لیے بہتر اور خوشحال ہو، اس لیے اللہ تعالیٰ کی رضا میں خوش رہنا سیکھئے، تمام مسائل کے حل کی کنجی اسی عمل میں پنہا ہے ۔
وما علینا الی البلاغ