امریکی صدر اور اقوام عالم!!!

0
210
ماجد جرال
ماجد جرال

ماجد جرال

انتخابات دنیا کے تمام ممالک میں ہوتے ہیں مگر امریکی انتخاب پوری دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔حلیف اور حریف ممالک امریکی انتخابات پر گہری نظر رکھتے ہیں، تصور یہ کیا جاتا ہے کہ امریکہ میں نئے صدر کے انتخاب کے بعد حلیف اور حریف ممالک کے لیے پالیسیاں کسی حد تک ردوبدل کا شکار ہوتی ہیں مگر یہ کس حد تک حقیقت کو چھوتی ہوئی بات ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے اگر آپ گزشتہ تین صدور کے ادوار دیکھ لیں تو یہ مفروضہ کسی حد تک حقیقت سے دور ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی کچھ پالیسیاں مستقل طور پر چلی آرہی ہیں،چاہے صدر ڈیموکریٹک پارٹی سے یا ریپبلیکن پارٹی سے ہو۔ روس اور چین سے لے کر ایران اور شمالی کوریا تک یا پھر بعد میں افغانستان ،عراق اور دیگر کئی مسلم ممالک ہوں تمام یکساں طور پر چلائی جانے والی پالیسیوں کے ساتھ ہی ڈیل کیے گئے۔ امریکہ میں ایک یہ بھی تاثر عام ہے کہ کوئی بھی صدر عمومااپنی دو مدت پوری کرتا ہے جس کے بعد وہ جماعت عوام کے سامنے اپنی کارکردگی کے بارے میں جواب دہ ہوتی ہے کہ انہوں نے آٹھ سال میں امریکہ کی بہتری کے لیے اور دنیا میں امریکہ کا امیج بہتر بنانے کے لیے کیا کردار ادا کیا جس کے بعد عوام اس کا جواب ووٹ کے ذریعے دیتی ہے۔ دیکھا جائے تو ووٹ امریکہ میں ایک ایسی طاقت ہے جس کے سامنے باقی تمام طاقتیں بے بس نظر آتی ہیں۔ انتخابات 2020 کو دیکھا جائے تو امریکی عوام نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دوسری مدت کے لیے منتخب کرنے کی بجائے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن کو صدر منتخب کر لیا ہے، امریکہ میں ایسا ہونا یقینا کسی بھی صدر کی کارکردگی پر بڑا اہم سوال چھوڑتا ہے۔ نو منتخب صدر جوبائیڈن کا فتح کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہتے ہیں کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر نہیں بلکہ امریکہ کے صدر ہیں اور وہ توڑنے کی بجائے جوڑنے والی سیاست کریں گے۔ نومنتخب صدر جو بائیڈن کی جانب سے یہ بیان کس تناظر میں دیا گیا ہے اس کا بہترین تجزیہ تو سیاسی تجزیہ نگار ہی کر سکتے ہیں مگر بطور صحافی میں سمجھتا ہوں کہ صدر جو بائیڈن کی جانب سے یہ بیان دینا سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس رویے کی عکاسی بھی کرتا ہے جس کے باعث امریکی عوام میں ایک تفریق نظر آتی تھی۔ ایک ایسی تفریق جس میں مذہب اور نسل کے حوالے سے تعصب پر مبنی واقعات نظر آتے رہے۔ امریکی صدارتی دفتر میں کسی اور عہدے پر بھی انتخاب ہر ملک اپنے حوالے سے بھی بڑا اہم سمجھتا ہے جس کی ایک واضح مثال بھارت میں منایا جانے والا جشن ہے جو کہ کمیلا ہیریس کی بطور نائب صدر کامیابی سے منسلک ہے کیونکہ والدہ کا تعلق بھارت سے ہے۔ اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے تو بنیادی طور پر امریکی پالیسیوں کا کسی ملک کے حوالے سے تعلق، کسی عہدے دار کا اس ملک سے کسی لحاظ سے بھی تعلق ہونے سے بالکل بھی مختلف نہیں، امریکہ دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے سب سے پہلے قومی مفادات سب سے آگے کا نعرہ لگایا تھا۔نو منتخب صدر جوبائیڈن اپنی عمر کے اس حصے میں یہ اعلیٰ ترین عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جب فیصلہ سازی کے لیے دماغ انتہائی مضبوط ہوتا ہے۔ ہم امید کر سکتے ہیں کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن امریکہ کی تاریخ کے کامیاب ترین صدر ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس معیار کو بھی اب نظر اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ حالیہ دور میں کامیابی کا موجودہ حلیہ کسی ملک کا زمینی قبضہ حاصل کرنے کی بجائے اپنی معاشی منڈیوں کی اجارہ داری قائم کرنا ہے، جس میں امریکہ کا ایک بڑا حریف ملک چین بڑی تیزی سے آگے بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔انشاءاللہ اگلے کالم میں امریکی صدر کے لیے پاکستان اور افغانستان میں درپیش چیلنجز کے حوالے سے سے اپنا تجزیہ پیش کروں گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here