پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے کہ یہاں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی توڑ پھوڑ اور جوڑ توڑ جاری ہے۔حزب اختلاف کا جمہوری اتحاد پی ڈی ایم کا اتحاد پاش پاش ہوچکا ہے۔دوسری طرف موجودہ حزب اقتدار کے اندر بغاوت برپا ہے ا گر اپوزیشن سے اے این پی اور پی پی پی الگ ہو رہے ہیں تو حزب اقتدار کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی عمران خان پرتابڑ توڑ حملے کر رہے ہیںجس کا سرغنہ جہانگیر ترین جو کسی زمانے میں عمران خان کی اے ٹی ایم مشین کہلاتی تھی جو عمران خان کے کروڑوں روپے کے اخراجات برداشت کیا کرتے تھے آج ان پر نیب کی بجائے ایف آئی اے میں مقدمات درج ہو رہے ہیں۔جو دس اپریل کی عدالت میں پیش ہوئے تو ان کے ساتھ درجنوں صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران کھڑے تھے جن کا مطالبہ یہ ہے کہ عمران خان کو غیر ملکی مشیروں نے گھیر رکھا ہے۔جو عوام کے منتخب نمائندگان پر برتری رکھتے ہیں جن کی غلط پالیسیوں سے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان برپا ہوا ہے۔جس سے لگتا ہے کہ جس طرح حزب اختلاف میں توڑ پھوڑ ہو رہی ہے۔اسی طرح حکومت میں بھی دھڑے بازیاں پیدا ہو رہی ہیں جس کو فاروڈ بلاک سے تشبیح دی جارہی ہے۔جس کا مطلب اور مقصد صاف ظاہر ہے کہ موجودہ حکومتوں کو بدلا جارہا ہے۔چاہے وہ پی ٹی آئی کے اندر تبدیلی لانے سے موجودہ حکمرانوں کو تبدیل کیا جائے یا پھر حزب اختلاف کی مدد سے صوبائی پنجاب اور مرکز کی حکومتوں کو بدل جائے یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ٹوپی ڈرامہ ہو۔جس سے عوام کو بےوقوف بنایا جارہا ہوتا کہ عوام کی بے چینی کو وقتی طور پر روکا جائے۔جو موجودہ حکومت کے خلاف پیدا ہوچکی ہے یا پھر جہانگیر ترین ٹولے کے چار سو ارب کرپش پر پردہ پوشی پائی جائے جس سے عوام کے لیے اشیائے خورد خریدنے کی سکت باقی نہیں بچی ہے یہی وجوہات ہیں کہ چینی چوروں کے مقدمات نیب کی بجائے ایف آئی اے کے حوالے کیے ہیںجنہوں نے اپنی تحقیقات کے بعد ایف آئی آر کاٹی ہے مگر گرفتاری ابھی تک کوئی نہیں ہوئی ہے جبکہ شریف خاندان اور ن کے رہنماﺅں کو بنا ثبوت اور مقدمے میں دو دو سال سے جیلوں میں بند رکھا ہوا ہے حالانکہ جہانگیر ترین کے کرپشن کے مقدمات کئی گنا زیادہ نقصان دہ ہیں مگر جہانگر ترین پر ابھی ہاتھ ہلکا رکھا ہوا ہے جو آئندہ دنوں میں پتہ چل جائے گا کہ یہ بغاوت ہے یا منافقت تاہم اسٹیبلشمنٹ کی پیدا کردہ اولاد صادق سنجرانی کو پھر دوبارہ پی پی پی کے سینیٹروں کے غلط مہر لگانے پر جتوایا گیا ہے جنہوں نے منصوبہ بندی کے تحت گیلانی کے نام پر مہریں لگائی ہیں جس سے ووٹنگ متنازعہ بن گئی جس کے بعد گیلانی نے اس غیرمنتخب سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو اپنے آپ کو اپوزیشن لیڈر کے لیے درخواست دے دی جس کے خلاف پی ڈی ایم کی ممبر پارٹیوں نے احتجاج کیا کہ پی پی پی ادارے این پی نے پی ڈی ایم کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے کہ جس میں طے پایا تھا کہ سینٹ کا چیئرمین کا امیدوار یوسف رضا گیلانی ڈپٹی چیئرمین مولانا غفور حیدری اور اپوزیشن لیڈر ن لیگ کا ہوگا۔
مگر پی پی پی نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے سرکاری سینٹروں کی مدد سے یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنوا لیا ہے جو پی ڈی ایچ کی توڑ پھوڑ کا باعث بنا ہے جس کے بعد اے این پی پی ڈی ایم کو چھوڑ چکی ہے۔جبکہ پی پی پی کسی بھی وقت چھوڑ کر چلی جائے گی چاہے دونوں پارٹیوں کو سیاسی طور پر جتنا چاہے نقصان ہوجائے۔یہی وجوہات سکے پاکستان کی جمہوری قوتیں گیلانی کو سرکاری اپوزیشن کا درجہ دے رہی ہیں جس میں سرکار دونوں طرف ووٹ دیتی نظر آئی ہے۔ظاہر ہے پی ڈی ایم خصوصاً مولانا فضل الرحمان اور نوازشریف کا بیانیہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے جس کو ہضم کرنا مشکل ہوگا۔جو پی ڈی ایم کی توڑ پھوڑ کا باعث بنا ہے۔دوسری طرف موجودہ حکومت کے اندر حکومت کو بدلنے کا سلسلہ بھی جاری ہے جو جہانگیر ترین چودھری برادران اور زرداری سازشوں کا ساخشانہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر بغاوت بلند کرکے تبدیلی لائی جائے جس میں شاید نون لیگ نہ ہوگی۔حالانکہ نون لیگ کے قومی اسمبلی کے86ممبران اور پنجاب اسمبلی کے166ممبران کی موجودگی میں تبدیلی ناممکن ہے جو صرف اور صرف عدم اعتماد کی شکل میں ہوگا۔لیکن اگر صرف پارٹی کے اندر تبدیلی ہوگی تو اس میں صرف نیا وزیراعلیٰ اور وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لے گا جس میں اپوزیشن کا ماسوائے زرداری کوئی کردار نہیں ہوگا۔جس کا حشر عمران خان سے بھی برا ہوگا۔کیونکہ موجودہ حالات میں کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی ہے۔کسی کو بھی ملک اور صوبہ پنجاب کا سربراہ بنایا جائے۔بہرحال پاکستان میں موجودہ توڑ پھوڑ سے ملک کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔جس میں استحکام مزید کمزور سے کمزور ہو رہا ہے۔پورے ملک کو سیاسی معاشی اور مالی بحرانوں نے جھگڑ رکھا ہے۔ہر طرف بے چینیاں اور کشیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔صوبوں میں مسلسل بے چینیاں پھیل رہی ہیں پورے ملک کو وباﺅں اور بلاﺅں نے گھیر رکھا ہے۔جس کی ذمہ دار موجودہ اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے اردتاً اور فرداً ملک میں انار کی پھیلائی ہے جو استحکام کی بجائے انتقام میں بدل چکی ہے۔کہ آج کے سیاستدان ایک دوسرے سے انتقام لینے پر تلے ہوئے ہیں۔جس سے ملکی اتحاد اور ترقی کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔عمران خان آج کا بہادر شاہ ظفر بن چکے ہیں جن کی موجودگی میں ملک پر آہستہ آہستہ غیر ملکی ساہوکاری مضبوط ہوتی جارہی ہے۔جس کی نظر میں پاکستان کے اثاثوں اور اداروں پر ہے کہ وہ کب مطالبہ کرےگی۔کہ اب پاکستان کے قیمتی قومی اثاثے اور ادارے ہمارے حوالے کردو جس کا وقت عنقریب آپہنچا ہے۔کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف آج پاکستان کے اسٹیٹ بنک کی طرف بڑھ رہی ہے۔جو ملک کا نہایت ہی اہم سرکاری ادارہ ہے۔جس کو ایک آرڈیننس کے ذریعے آئی ایم ایف کے حوالے کیا جارہا ہے تاکہ مستقبل میں پاکستان کی کرنسی ، درآمدات اور برآمدات کاروبار بین الاقوامی ساہوکاری کے حکم جاری ہو۔
٭٭٭