وزیراعظم عمران خان نے قومی قرضوں کی وجہ سے بڑھتی مشکلات پر فکر مندی کا اظہار کیا ہے۔ اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے اڑھائی سال میں 35ہزار ارب روپے کا قرضہ واپس کیا جبکہ مسلم لیگ ن نے اپنے 5سال میں 20ہزار ارب روپے قرض کی واپسی میں ادا کئے۔ وزیر اعظم اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہر سال قرضوں کی اقساط بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس ساری مشکل صورت حال میں عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے حکومت کے پاس فنڈز نہیں بچتے جو الگ سے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بھاری قرضوں کے ذریعے غیر پیداواری منصوبے شروع کرنے کی ذمہ دار نہیں‘ قرضوں کا بوجھ پی ٹی آئی کو ورثے میں ملا جس کو کم کرنے کے لئے اس نے تین جہتی حکمت عملی اختیار کی۔ قرض اقساط کی فوری ادائیگی کے لئے دوست ممالک سے قرض لیا۔ آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کا بیل آﺅٹ پیکیج حاصل کیا۔ دوسری طرف حکومتی اخراجات کم کئے گئے۔ ہر سطح پر کفایت شکاری کی مہم شروع کی گئی۔ وزیر اعظم اور ان کے رفقاءنے جس قدر بیرونی دورے کئے ان میں اخراجات کو کم سے کم رکھا گیا۔ اس سلسلے میں تیسرا کام یہ کیا گیا کہ صنعتی برآمدات کو بڑھانے کے لئے ٹیکسٹائل اورہاﺅسنگ کے شعبے کو رعائتیں دیں تاکہ لوگوں کو روزگار ملے۔ ان کوششوں کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا۔ تجارتی خسارہ ختم ہو چکا ہے۔برآمدات کا حجم بڑھا ہے۔ ٹیکس محصولات چار ہزار ارب روپے تک جا پہنچے ہیں لیکن ان قرضوں کی واپسی میں ہنوز مشکلات درپیش ہیں جو خسارے کی سرمایہ کاری کے لئے استعمال کئے گئے اور جن کا واحد مقصد سیاسی فوائد کا حصول تھا۔ وزارت اقتصادی امور کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ رواں مالی سال کے ابتدائی پانچ ماہ میں لیے گئے قرضوں کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت (یکم جولائی 2018 سے) مجموعی طور پر 23 ارب 60 کروڑ ڈالر کے غیر ملکی قرضے حاصل کرچکی ہے۔وزارت کا کہنا ہے کہ ‘مالی سال 21-2020 کے جولائی تا نومبر کے دوران حکومت کو متعدد فنانسنگ ذرائع سے 4 ارب 49 کروڑ ڈالر کی بیرونی رقوم موصول ہوئی ہیں’۔ پورے مالی سال 21-2020 کے لیے 12 ارب 23 کروڑ ڈالر کے سالانہ بجٹ کے تخمینے کا یہ37 فیصد تھا۔مالی سال 20-2019 کے اسی عرصے میں بیرونی رقوم 3 ارب 10 کروڑ رہی تھیں۔یہ رقم سالانہ بجٹ کے تخمینے کا 24 فیصد 12 ارب 95 کروڑ ڈالر تھی۔حکام کے مطابق پاکستان کو مالی سال 20-2019 کے دوران مجموعی طور پر 10 ارب 70 کروڑ ڈالر اور مالی سال 19-2018 کے دوران 8 ارب 40 کروڑ ڈالر وصول ہوئے۔ کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد سے ترقیاتی شراکت داروں سے منصوبے کے لیے مالی اعانت کے عمل میں کمی آئی ہے، وبا کے نتیجے میں بیشتر معاشی سرگرمیاں، بشمول ترقیاتی منصوبوں پر کام رک گیا تاہم حکومت کی طرف سے وبائی مرض سے متعلقہ پابندیوں میں نرمی کے بعد معاشی سرگرمیاں کسی حد تک بحال ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے رواں مالی سال مالی اعانت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ موجودہ حکومت ہر سال 10 ارب ڈالر کے قرضے واپس کر رہی ہے۔تقریبا ایک ارب 62 کروڑ ڈالر یا 36 فیصد غیرملکی تجارتی قرض تھا جو پرانے غیر ملکی تجارتی قرضوں کی ادائیگی کے لیے تھا۔اس کے علاوہ ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے 51 کروڑ 80 لاکھ یا 12 فیصد جو ملک کی معاشی ترقی کو بہتر بنانے اور اثاثوں کی تخلیق کے لیے وصول کیا گیا۔6 کروڑ ڈالر یا ایک فیصد قلیل المدتی کریڈٹ تھا جبکہ رواں مالی سال کے دوران محفوظ رقم کے ذخائر کے حساب سے ایک ارب یا 22 فیصد وصول کیا گیا تھا۔ سال 2020 میں کورونا کی وبا پھیلنے پر وزیراعظم نے عالمی مالیاتی اداروں سے اپیل کی جس پر پاکستان کو غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ایک بڑی سہولت حاصل ہوئی اور ڈیٹ سروس معطلی اقدام (ڈی ایس ایس آئی) کے تحت دو ارب 41 کروڑ ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کو ری شیڈول کر دیا گیا۔عالمی بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سال 2020 میں ملک کو مجموعی طور پر 8 ارب 97 کروڑ 40 لاکھ ڈالر ادا کرنے تھے جس میں عالمی مالیاتی اداروں کے 3 ارب 40 کروڑ ڈالر، امیر ملکوں کے4 ارب 32 کروڑ ڈالر، غیر ملکی کمرشل بینکوں کے 85 کروڑ ڈالر اور بانڈ ہولڈرز کے 362 کروڑ 25 لاکھ ڈالرز شامل ہیں۔تاہم دو ارب 41 کروڑ ڈالر کے قرض کی ری شیڈولنگ سے اس سال کے دوران ملک کی قرضوں کی مد میں ادائیگیاں 6 ارب 53 کروڑ ڈالر ہوگئیں جس سے شرح نمو یا جی ڈی پی میں 0.9 فیصد کی بچت ہوئی۔ پاکستان پر ایک سو دس ارب ڈالر کے بیرونی قرضے ہیں۔معیشت کی استعداد کو دیکھیں تو اس قدر قرضوں کی ادائیگی روز بروز مشکل ہو رہی ہے۔ سابق حکمران جماعتیں اس معاملے کی تفصیلات سے آگاہ ہونے کے باوجود تحریک انصاف کو قرضوں کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں جو بذات خود ایک غیر مناسب بات ہے۔ وزیر اعظم کی اس بات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ حکومتوں نے معیشت کو قرضوں میں ڈبو دیا تاہم اب ان کا فرض ہے کہ ملک کو ایسی صورت حال سے نکالنے کے لئے موثر منصوبہ بندی کریں۔
٭٭٭