Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سول حکومت کو سلیکٹرز کی لے پالک حکومت قرار دیا گیا ہے جن کو 25 جولائی 2018ءکی رات کو ڈاکہ زنی کے ذریعے جتوایا گیا۔ جس میں کمپیوٹر بند، پولنگ ایجنٹس بند، الیکشن کمیشن بند، نتائج بند، فارم 45 بند کیا گیا جس کا آج تک کسی الیکشن کمیشن، عدالت اور ٹربیونل نے نوٹس نہیں لیا جبکہ سابقہ دوروں میں انتخابات میں دھاندلیوں کےخلاف ہر روز مقدمات کے فیصلے ہوتے رہے، چار حلقوں کو بھی کھولا گیا جس میں واویلی خان کو پھر شکست فاش ہوئی تھی۔ پھر 2018ءکے انتخابات میں چار حلقوں میں کامیاب ہونےوالا لاڈلہ اپنی تین چھوڑی ہوئی نشستیں بھی کھو بیٹھا۔ یہ تھی وہ ہر دلعزیز پارٹی جوعوام کو نظر آئی۔ گزشتہ دو سال میں نہ کوئی شخص ڈی سیٹ ہوا، اب تک نا ہی کوئی مقدمہ چلا جس سے ثابت ہو چکا ہے کہ پاکستان کے وہ سیاستدان جو تحریک انصاف کے صدر رہ چکے ہیں انہوں نے یہ کہہ کر پارٹی اور اپنی نشست چھوڑ دی تھی کہ اب پاکستان پر جوڈیشل مارشل لاءنافذ ہونے جا رہا ہے جس میں جج صاحبان جنرلوں کی جگہ لے لیں گے جو عدالتوں کے ذریعے مخالفین کو شکار کرینگے جو سچ ثابت ہوا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے پہلے پانامہ پر جب بات نہ بنی تو اقامہ میں نوازشریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹا کر نیبی اور غیبی طاقتوں کے حوالے کر دیا۔ نیب کے جج ارشد ملک کے اوپر ایک سپریم کورٹ کا جج اعجاز الحسن کو نگران مقرر کیا تاکہ جے آئی ٹی اور جج ارشد ملک کو کوئی نوازشریف کو العزیزیہ میں سزا دینے سے نہ روکے۔ آج پھر جاوید ہاشمی زمانہ طالب علمی سے سیاست میں محرک پنجاب یونیورسٹی کے صدر اور مختلف تحریکوں میں شامل رہے جنہوں نے جنرل ضیاءالحق کی حمایت کرنے پر غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے کھلے عام پاکستانی عوام سے معافی مانگی۔ آج وہ پاکستان کے بلواﺅں اور دربانوں کو للکار رہے ہیں کہ تم آجاﺅ۔ آپ ملک کو خونی انقلاب کی طرف دھکیل رہے ہو، سیاست میں مداخلت کے منفی نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ سویلین اتھارٹی کو قبول کرتے ہوئے سرحدوں کی حفاظت کرو۔ آپ نے پاکستانی عوام کو فتح کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے ہر جنگ ہار چکے ہو یہ وہ پریس کانفرنس تھی جس کو ریگولر میڈیا نے شائع نہ کیا مگر سوشل میڈیا کی زینت بنی، جاوید ہاشمی کی تصدیق سپریم کورٹ کے سابق جج اعجاز چودھری نے کی کہ ہاشمی صاحب بالکل صحیح فرما رہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے نوازشریف کی وزارت عظمیٰ سے نکال کر جوڈیشل مارشل لاءکی بنیاد رکھی ہے کہ اب جو کچھ ہوگا عدلیہ کے ذریعے ہوگا جو بہت ہی بُرا ہوگا جس سے عدلیہ کا وقار مجروح اور متنازعہ ہو جائےگا۔ جاوید ہاشمی کےساتھ ساتھ ایوانوں میں پارلیمنٹیرین ریاض پیرزادہ نے 3 بلوانوں پر الزامات لگائے کہ آج پورا چولستان فوجی چھاﺅنی بن چکا ہے جس کے کسانوں کو بیدخل کر دیا گیا، ہر طرف چوکیاں بن چکی ہیں، پوری چولستان کی زمین کاشتکاروں سے چھین لی گئی ہے جس کی وجہ سے غریب اور بے چارے کاشتکار بھوک و افلاس کا شکار ہو چکے ہیں۔ جس سے ثابت ہو چکا ہے کہ بلوان میدانوں، ریگستانوں، شہروں، زرعی زمینوں، سمندروں اور صحراﺅں پر قابض ہو چکے ہیں جن کی جائیدادیں پورے پاکستان میں پائی جا رہی ہیں جو رہائشی، تجارتی، مالیاتی، صنعتی، فشری اور فلمی کاروبار میں مصروف ہیں۔ ایوان بالا میں ایک اور پارلیمنٹیرین سینیٹر مولانا طاہر رحمان نے بلوانوں اور دربانوں کو للکارتے ہوئے وہ تمام کارکردگی بتا دی جس کا جواب خدارا کہ بلوانوں کو اپنی ہی عوام کو فتح کرنے سے فرصت نہیں کشمیر کیا فتح کرینگے۔ انہوں نے بھی تمام جنگ و جدل میں بلوانوں کی پسپائیوں کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ کب تک جاری رہے گا کہ آپ لوگ سیاست میں رنگ رلیاں مناتے رہیں گے جس سے ملک و قوم کا بے تحاشہ نقصان ہو چکا ہے کہ آج پاکستان پسماندگی کے درجے سے گر چکا ہے۔ معیشت تباہ حال، سیاست بہ حال اور مالیات نایاب یہ ہے وہ پاکستان جو مسلمانوں کیلئے بنایا گیا تھا وغیرہ وغیرہ، علاوہ ازیں پاکستان کے چار ججوں کو سلام پیش کرتے ہیں کہ جنہوں نے بلوانوں کو للکارہ ہے جس میں قاضی عیسیٰ کا کوئٹہ کا سانحہ جس میں ساٹھ وکلاءشہید ہوئے تھے جس میں ایجنسیوں کی سازش عیاں کی گئی کہ جن کی موجودگی میں اتنا بڑا سانحہ پیش آیا کہ بلوچستان کے قابل ترین وکلاءکو چند گھنٹوں میں مارڈالا، پھر انہوں نے فیض آباد ھرنے میں جنرل فیض حمید کو ننگا کیا جس کے رد عمل پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کےخلاف صدارتی ریفرنس بنایا گیا جس کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیدیا۔ اب ان کی بیگم کو انکم ٹیکس کے حوالے کر دیا جو انہیں دن رات رُسوا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں کبھی گھر کے سامنے نوٹس چسپاں کر دیتے ہیں جس طرح کسی مفرور ارو باغی شخص کو عدالتوں کے نوٹسز لگائے جاتے ہیں جبکہ بیگم صاحبہ نے اپنی جائیداد اور باہر سے پیسے بھجوانے کا تمام ریکارد جمع کرا دیا ہے کہ انہوں نے تمام پیسے پاکستان کے قانون اور اجازت کے مطابق اپنے بچوں کو بھجوائے تھے جو ایک جائز آمدن کا ذریعہ تھا مگر اب بلوانوں کے اشاروں پر جسٹس قاضی عیسیٰ کو تنگ کیا جا رہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ چھوڑ کر بھاگ جائے۔ اسی طرح پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ کو تنگ کیا جا رہا ہے جنہوں نے پہلے جنرل مشرف کو مقدمہ غداری میں سزائے موت سنائی اب انہوں نے فوجی عدالتوں کی سزاﺅں کو کالعدم قرار دیا ہے جس کی وجہ سے انہیں سپریم کورٹ میں نامزدگی سے روکا جا چکا ہے جن کی جگہ تین عدد جونیئر ترین ججوں کو جج بنا دیا گیا لیکن جسٹس وقار سیٹھ کو روک دیا گیا ہے۔ قبل ازیں اسلام آباد کے جسٹس شوکت صدیقی نے بار کے سامنے احتجاج کیا کہ فوجی افسران عدلیہ کے فیصلوں میں مداخلت کر رہے ہیں جن کو اس پاداش میں سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے برطرف کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے آج ججوں اور وکیلوں میں سخت بے چینی پائی جا رہی ہے جو کسی بھی وقت وکلاءتحریک کی طرح دوبارہ بلوانوں سے ٹکرا جائینگے جو ملک کیلئے اچھا نہ ہوگا۔
٭٭٭