عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) نے معاشی و مالیاتی مشکلات کے شکار پاکستان سے چھ ارب ڈالر کے بیل آﺅٹ پروگرام کی اگلی قسط جاری کرنے سے قبل چار مطالبات رکھے ہیں۔ آئی ایم ایف حکام نے جو شرائط پیش کی ہیں ان کے مطابق بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ‘ سٹیٹ بنک کی خود مختاری کےلئے قانون سازی‘ بجلی کی قیمتوں کے ہر تین ماہ بعد تعین کےلئے نیپرا ایکٹ میں ترامیم اور ریونیو میں اضافے کےلئے پالیسی کے نفاذ جیسی شرائط بتائی جا رہی ہیں۔ وزارت خزانہ نے اس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ متعدد معاملات طے ہو چکے ہیں تاہم کورونا کی وجہ سے ابتر معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی ایم ایف کو قائل کرنا ہو گا کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں کو بڑھانے‘شرح سود میں اضافہ کرنے اور سبسڈی میں کمی کرنے سے عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھ جائے گا۔کاروبار اور ملازمتوں میں کمی کی وجہ سے ریونیو کا ہدف متاثر ہو رہا ہے اور اگر عالمی مالیاتی فنڈ نے اپنی شرائط پر بے لچک اصرار جاری رکھا تو پاکستان ایک نئے بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کو 2018ءمیں جب اقتدار ملا تو ملک کے زرمبادلہ ذخائر 9ارب ڈالر تک رہ گئے تھے۔ اس رقم سے برآمدات کا دو ماہ کا بل بھی ادا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ 18ارب ڈالر اور تجارتی خسارہ 37.6ارب ڈالر سالانہ تھا۔ یعنی ملکی درآمدات 60.8ارب ڈالر اور برآمدات 23.2ارب ڈالر تھیں۔ قبل ازیں 2013ءمیں جب مسلم لیگ ن کو اقتدار ملا تو برآمدات کا حجم 24.5ارب ڈالر اور درآمدات 44.8ارب ڈالر تھیں۔ یوں تجارتی خسارہ 20ارب ڈالر تھا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے جو مالیاتی اور تجارتی پالیسیاں ترتیب دیں ان کے نتیجہ کے طور پر تحریک انصاف کو 93ارب ڈالر کا غیر ملکی قرض ورثے میں ملا۔ بتایا گیا کہ قرض کی یہ رقم مجموعی سالانہ شرح نمو کا 74فیصد تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے آغاز میں آئی ایم ایف سے رجوع کرنے سے انکار کیا۔ معیشت وزیر اعظم عمران خان اور ان کے مالیاتی امور کے ماہرین کے اندازوں سے کہیں زیادہ خراب حالت میں تھی۔ حکومت کو توقع تھی کہ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی اس سلسلے میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کریں گے لیکن محنت مزدوری کرنےوالے یہ تارکین کوشش کے باوجود بیرونی قرضوں اور ادائیگی کےلئے خاطر خواہ مدد نہ کر سکے۔ اس کے بعد حکومت نے دوست ممالک سے رجوع کیا۔ پاکستان میں 50ارب ڈالر کے لگ بھگ سرمایہ کاری کرنےوالے دیرینہ دوست چین سے رابطہ کیا گیا۔ چین کو نئی حکومت کے حوالے سے کچھ خدشات تھے جنہیں وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے احسن انداز میں رفع کیا۔ چین کو کچھ مدت تک سی پیک منصوبوں پر خرچ رقوم کی جانچ پڑتال کےلئے وقت دینے پر آمادہ کر لیا گیا۔ چینی قیادت نے اس موقع پر معقول رقم پاکستان کو قرض کے طور پر فراہم کی۔ سعودی عرب نے تین برس کے ادھار پر سالانہ 3ارب ڈالر کا تیل دینے اور مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کا وعدہ کیا۔ متحدہ عرب امارات نے دوستی کے ناتے 3ارب ڈالر رقم اکاﺅنٹ میں رکھنے اور پھر قرض کے طور پر الگ رقم کا انتظام کیا۔ ان انتظامات کے باعث پاکستان اس ہنگامی کیفیت سے نکل آیا جو آئی ایم ایف کی بعض نامناسب شرائط قبول کرنے پر مجبور کر سکتی تھی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جب تیرھویں بیل آﺅٹ پیکیج پر وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی میں مذاکرات ہو رہے تھے تو آخری لمحات میں حکومت نے اپنی ٹیم تبدیل کر دی۔ اس وقت بعض ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بیل آﺅٹ پروگرام احسن انداز میں پروان چڑھتا نظر نہیں آتا۔ آئی ایم ایف نے جو شرائط رکھی تھیں ان میں سے پہلی یہ تھی کہ حکومت ریونیو میں اچھا خاصا اضافہ کرے‘ دوم یہ کہ حکومت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے مطالبات کو پورا کرے گی‘ اس کا مطلب یہی تھا کہ ملک میں آنےوالے زرمبادلہ پر ایف اے ٹی ایف کی نگرانی قبول کر لی جائے‘ اگر ایف اے ٹی ایف کسی شخص یا ادارے پر اعتراض کرے تو اسے بلیک لسٹ کرکے کارروائی کی جائے۔ تیسری شرط سٹرکچرل ریفارمز کرنا تھی۔ دو سال کے دوران تحریک انصاف کی حکومت نے ایف اے ٹی ایف کی متعدد شرائط کے مطابق بینکنگ نظام میں نئے قوانین متعارف کرائے۔ کالعدم قرار دئیے گئے افراد اور اداروں کےخلاف کارروائی کی۔ حکومت نے سٹرکچرل ریفارمز کے تحت سٹیٹ بنک کو کئی امور میں خود مختاری دی۔ روپے اور ڈالر کی شرح کو کنٹرول کرنے میں حکومتی عمل دخل ختم کیا گیا۔ گزشتہ برس حکومت نے 5500ارب روپے کا ٹیکس ہدف مقرر کیا جو بعدازاں 4200اور پھر کورونا کے باعث نظرثانی کر کے 3900ارب روپے کیا گیا جو ریکارڈ حجم 4000ارب روپے کی صورت میں سامنے آیا۔ کورونا کی وبا نے پوری دنیا کی معیشت کو متاثر کیا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں اس کے منفی اثرات شدید صورت میں ظاہر ہوئے ہیں۔ حکومت بیل آﺅٹ پیکیج پر اگلے ماہ ہونےوالے مذاکرات میں آئی ایم ایف حکام کے سامنے اپنی کامیاب اصلاحات اور وبا کے باعث پیش آنےوالی مشکلات کا حوالہ دے کر عالمی فنڈسے ایسی رعایتیں حاصل کرنے کی ضرور کوشش کرے جن سے بجلی‘ تیل اور سبسڈیز کے معاملات پر شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ نہ ہو سکے۔
٭٭٭