امریکی صدارتی انتخاب میں الیکٹورل کالج کی اہمیت!!!

0
247

 

Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA

امریکی صدارتی انتخابات میں الیکٹرول کالج کی بری اہمیت ہے، جن کا صدر کی بجائے پہلے چناﺅ ہوتا ہے جن کی تعداد امریکی کانگریس (سینیٹ اور ہاﺅس نمائندگان) کی تعداد کے برابر ہوتی ہے، جس میں دارالخلافہ واشنگٹن ڈی سی کے غیر منتخب تین الیکٹرول بھی شامل ہوتے ہیں جو 538 (435+100+3) کے برابر کہلاتے ہیں۔ امریکی صدارتی انتخاب میں کامیابی کیلئے 270 الیکٹرول لینا لازمی ہوتے ہیں جس کیلئے پاپولر ووٹوں کےساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ ریاستوں میں کامیابی حاصل کرنا ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی امیدوار زیادہ پاپولر ووٹ لے کر کامیاب نہیں ہو سکتا ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ ہر امیدوار زیادہ سے زیادہ ریاستوں کے ووٹ لے کر الیکٹرول جیتنے کی کوشش کرے ورنہ کوئی امیدوار بھی لاکھوں کی تعداد میں زیادہ ووٹ لینے کے باوجود کامیاب نہیں ہو سکتا ہے جس کی مثال 2016ءکے انتخابات میں ہیلری کلنٹن تیس لاکھ اور 2002ءمیں ارگور پانچ لاکھ زیادہ ووٹ لے کر بھی ناکام رہے تھے کیونکہ انہیں زیادہ ریاستوں میں پاپولر ووٹ نہ ملے تھے، الیکٹرول کالج کا نظام اس لئے رکھا گیا تھا تاکہ چھوٹی ریاستوں کو برابر کی نمائندگی حاصل ہو، ہر امیدوار چھوٹی ریاستوں میں جا کر لوگوں سے ووٹ مانگے کہ کسی بڑی ریاستوں میں ووٹ لے کر صدر بن کر چھوٹی ریاستوں کو نمائندگی سے محروم نہ رکھا جائے، حالانکہ سینیٹ میں تمام چھوٹی بڑی ریاستوں کو برابری کی نمائندگی حاصل ہے، مزید برآں الیکٹرول کالج کے تصدیق شدہ نمائندگان جو ہر ریاست کے سینیٹرز اور کانگریس مین کے برابر ہوتی ہے انہیں قانوناً بعض ریاستوں کے الیکٹرول چاہیں تو وہ کسی بھی امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں چاہے وہ کسی امیدوار کی جیتی ہوئی ریاست کے الیکٹرول کیوں نہ ہوں کہ ایک بالکل غیر جمہوری نظام ہے جس کا خاتمہ ہونا چاہئے جس پر ابھی تک کانگریس خاموش ہے، علاوہ ازیں تین نومبر بروز منگل امریکی انتخابات کا دن ہے جس دن صدر، سینیٹ ہاﺅس نمائندگان، ریاستی گورنرز، اٹارنی جنرلز، بعض جج صاحبان، میئرز، ضلعوں کے سربراہوں اور دوسرے نمائندگان کا انتخاب ہوگا، اس سال حسب دستوری روایات کے مطابق نومبر کے پہلے منگل کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس دن امریکی عوام اپنے شہری، ریاستی اور کانگریس، سینیٹ اور صدر کا انتخاب کرینگے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی امریکہ میں انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو وہ نومبر کے پہلے منگل کے دن ہوتا ہے چاہے تاریخ کوئی بھی ہو، جس طرح امسال تین نومبر ہے جبکہ 2016 میں آٹھ نومبر بروز منگل کا دن تھا اگر اس دفعہ تین نومبر کو منگل نہ ہوتا تو تاریخ بدل سکتی ہے لیکن دن منگل لازمی ہونا چاہیے جبکہ ہندوﺅں کیلئے منگل کا دن بُرا دن کہلاتا ہے جس دن ہندو مذہب کے لوگ اپنا کاروبار اور کام کاج بند رکھتے ہیں، اسی طرح امریکہ میں پیر کے دن ماہ ستمبر میں ہر سال لیبر ڈے منایا جاتا ہے چاہے تاریخ کوئی بھی ہو۔ ستمبر کے پہلے سوموار کو لیبر ڈے منایا جاتا ہے جو موسم گرما کا آخری دن کہلاتا ہے جیسا کہ گزشتہ لیبر ڈے ماہ ستمبر کو پیر کا دن سات ستمبر کو آیا تھا جو گزشتہ سال لیبر ڈے چھ ستمبر کو بروز پیر کو منایا گیا تھا جبکہ پیر کا دن مسلمانوں کیلئے مبرک دن کہلاتا ہے جس دن بارہ ربیع الاول بروز پیر کو حضورﷺ کی ولادت ہوئی اور وہ اس دنیا میں تشریف لائے تھے جن کی وجہ سے دنیا کو عہد جہالت، غلامیت اور بربریت سے آزادی ملی تھی جن کےخلاف دنیا بھر کی سلطنتیں روم اور فارس لڑ پڑیں تھیں جن کو حضرت عمرؓ کے دور کلافت میں شکست فاش ہوئی تھی تاہم اسمال تین نومبر بروز منگل کو فائنل انتخاب کا نتیجہ نکلے گاج س مین اب تک پچاس ملین ووٹ کاسٹ ہو چکے ہیں جو اس دفعہ کرونا وباءکی وجہ سے پیشگی ووٹنگ کی اجازت دی گئی ہے تاکہ تین نومبر کے دن ووٹرز کا رش پیدا نہ ہو پائے جس سے وباءمیں شدت کو روکا جائے لہٰذا دو نومبر تک ووٹنگ جاری رہے گی جس کا تین نومبر کی شام اور رات کو فیصلہ ہو جائےگا کہ کونسا امیدوار کن کن ریاستوں میںزیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہو اہے پایہ¿ تکمیل جنوری میں پہنچے گا جب ریاستوں کے نامزد الیکٹرول صدارتی امیدوار کو ووٹ دے کر کامیابی کا اعلان کیا جائےگا، صدر ٹرمپ کی ہٹ دھرمیوں اور غلط بیانیوں سے لوگوں میں کنفیوژن پیدا ہو رہی ہے کہ کیا ٹرمپ ہارنے کے بعد بھی وائٹ ہاﺅس چھوڑے گا یا نہیں، جس کیلئے فوج استعمال ہوگی یا نہیں جو ابہام پر مشتمل افواہیں ہیں، بیس جنوری 2021ءکو نیا صدر حلف وفاداری اُٹھائے گا سابق صدر آفس چھوڑ دے گا اگر کسی عمران نما حکمران نے آفس سے ہٹنے کی کوشش نہ کی تو صرف اور صرف واشنگٹن ڈی سی کی پولیس وائٹ ہاﺅس خالی کرا دے گی جس کیلئے کسی فوج کی ضرورت نہیں پڑے گی یہ امریکہ ہے یہاں آئین اور قانون کی بالادستی ہے چاہے کوئی بھی شخص کتنا بڑا طرم خان کیوں نہ ہو بشرطیکہ کوئی تنازعہ عدالتوں میں زیر سماعت ن پائے جس طرح الگور کے وقت فلوریڈا میں از سر نو گنتی کا معاملہ طُول پکڑ گیا تھا جس میں سپریم کورٹ کُود گیا جس نے فلوریڈا کی بعض کاﺅنٹیوں کی از سر نو گنتی کو روک کر جارج بش کے حق میں فیصلہ دےدیا جو امریکی جمہوریت کا سیاہ دن تھا مگر نظام اور ٹرانسفر آف پاور جاری رہی ہے اس لیے افواہوں کی بجائے امریکی آئین پر اعتماد رکھنا ہوگا جو امریکہ کا سپریم کہلاتا ہے جس کے سامنے ہر شہری اہلکار اور ادارہ سرنگوں رہتا ہے، بہرحال امسال انتخابات میں نسل پرستی کو بے تحاشہ استعمال کیا گیا ہے جس میں صدارتی امیدوار صدر ٹرمپ پیشپیش ہیں جو ساﺅتھ کے امریکن شہریوں کو مسلسل نسل پرستی پر اُکسا رہے ہیں جس سے امریکہ تقسیم میں پیدا ہو رہی ہے جبکہ صدارتی امیدوار جوبائیڈن نفاق کی بجائے اتفاق کا نعرہ بلند کر رہے ہیں جس کی امریکہ کو آج شدید ضرورت ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here