گستاخانہ خاکے اور مسلم امہ!!!

0
104

فرانسیسی صدر میکغوں کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی ایک عمارت پر تشہیر کی اجازت دینے اور مسلمانوں کی دل آزاری اسلام پر حملہ قرار۔ صدر میکغوں نے اسلامو فوبیا کی حوصلہ افزائی کی ،فرانس میں مسلمانوں کو لباس سے لیکر عبادت تک کے انتخاب سے روکا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے فرانس میں ایک اٹھارہ سالہ چیچن طالب علم نے اظہار رائے کے نام پر خاکوں کی حمایت پر استاد کا سرقلم کیا تو فرانس میں آزادی‘ ہیومن رائٹس اور اسلامو فوبیا کے حامی طبقات نے اسے فرانس کی اقدار کے لئے سنگین خطرہ قرار دے کر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف مہم شروع کر دی۔ تازہ اطلاعات کے مطابق صدر میکغوں نے ”پرتشدد اسلام“ کے خلاف ملک بھر میں مہم شروع کر دی ہے۔ ایک مسجد کو تالہ لگا دیا گیا ہے جبکہ نفرت پھیلانے کے الزام میں متعدد مسلمان گرفتار کر لئے گئے اور کئی تنظیموں پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں‘ فرانس میں حجاب اوڑھنے والی خواتین پر چاقو کے حملے ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کے لئے سماجی آزادی محدود ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایسا اس ملک میں ہو رہا ہے جہاں سارتر اور روسو جیسے مفکرین نے معاشرے کو سب کے لئے جائے امان بنانے کا پرچار کیا۔ فرانس دنیا کے طاقتور ممالک میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ میں اسے ویٹو پاور حاصل ہے۔ دنیا کے کسی علاقے میں جب طاقت کا توازن بگڑ جاتا ہے تو فرانس اپنا وزن ڈال کر اسے متوازن کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ مشرق وسطیٰ کے معاملات پر کافی حد تک امریکہ کی اجارہ داری ہے تاہم شام‘ لبنان اور ایران کے ساتھ معاملات طے کرنا ہوں تو فرانس معاونت کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ سابق نوآبادیاتی طاقت ہونے کی وجہ سے کسان کو افریقہ کے کئی علاقوں میں اب بھی اہم تزویراتی حیثیت حاصل ہے‘ اس پس منظر کے ساتھ فرانس میں جب مسلمانوں کے حوالے سے تعصب کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو وہ عالمی سطح پر ارتعاش پیدا کرتا ہے جیسا کہ حالیہ واقعات کے بعد آسٹریلیا میں مسلمانوں پر حملے ہوتے ہیں۔ فرانس انسانی آزادیوں کے حوالے سے ایک حساس ریاست ہے۔ یہاں کے لوگ تاریخی طور پر پاپائیت سے خوفزدہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مذہب انسان کی آزادیوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ مناسب دلیل پیش کرنے میں پوپ اور ان کا ادارہ ناکام رہے اس لئے انسانی آزادیوں کا نظریہ پھیلتے پھیلتے اس سطح پر آ گیا ہے کہ فرانس اور دیگر مغربی ممالک میں لباس کو بھی ایک پابندی کی شکل میں دیکھا جاتا ہے جس کے خلاف بطور احتجاج لوگ برہنہ پریڈ کرتے ہیں۔ ایسے سماج میں حجاب‘پردے اور مکمل ستر پوشی کو غیر مہذب اور معاشرے کے لئے خطرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ فرانس میں ایسے انتہا پسندوں کی کمی نہیں جو مسلمانوں کے رہن سہن‘ لباس اور عبادات کو اپنے نظام کے لئے خطرہ بنا کر بتاتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف تعصب کی ایک بڑی وجہ سیاسی ہے۔ پورے یورپ میں فرانس ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمان آباد ہیں‘50لاکھ مسلمانوں کی آبادی کا ووٹ عام طور پر لبرل ایجنڈا کی حامل جماعتوں کے خلاف ہوتا ہے‘ صدر میکغوں کی جماعت اسی لئے مسلمانوں کے خلاف سخت موقف اپنائے ہوئے ہے۔ فرانس کی انتہا پسند آزاد خیال جماعتوں کی پھیلائی نفرت کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برس مسلمانوں پر 2018ءکی نسبت 54فیصد حملے زیادہ ہوئے۔ ان حملوں کی تعداد 154ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کو بطور قوم چند جرائم پیشہ افراد کی نسبت سے متعارف کرایا جاتا ہے حالانکہ مغربی معاشروں میں مسلمانوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ان کا ذکر کیا جا سکتا تھا۔ اس سلسلے میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن کی حکمت سے روشنی لے کر فرانس اسلامو فوبیا کی تحریک کو قابو کر سکتا تھا۔ گزشتہ چند برسوں سے اسلام مخالف عناصر نے خاکوں کے ذریعے مسلمانوں کی دل آزاری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ پچھلے سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے مغربی معاشروں میں اسلام کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب کو عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دیا تھا۔ انہوں نے منطقی بات کی تھی کہ اگر مغربی سماج ہولو کاسٹ پر زبان بندی کا حامی ہے تو اسے مسلمانوں کے لئے جان سے عزیز ہستیوں کے لئے بھی احترام کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ فرانس کے صدر اگر دانشمند ہوتے تو اپنے ملک میں اسلامو فوبیا کے خاتمہ کے لئے اقدامات کرتے۔ وہ مسلمانوں کو یقین دلاتے کہ ریاست کسی کو اسلام اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دے گی اور مسلمان فرانس کے قانون پر بھروسہ کریں لیکن صدر میکغوں نے اس کے برعکس طرز عمل اختیار کر کے مسلمانوں کے لئے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوان اس حوالے سے فرانس کی بھر پور مذمت کر چکے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے شدید الفاظ میں مذمت آئی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here