گسٹاپوازم اور فازشم کا راج!!!

0
225

پاکستان میں آئے دن نامعلوم اہلکاروں کے ہاتھوں صحافیوں، وکیلوں اور سیاستدانوں کی گرفتاریاں، اغواءکاریاں اور قتل و غارت گریاں روز مرہ کا وطیرہ بن چکا ہے جس کو نامعلوم کے نام سے پُکارا جاتا ہے جبکہ یہ سب کچھ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو جرائم کر رہے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے لا تعداد صحافی مار دیئے گئے۔ بعض کو اغواءکیا گیا، ڈرایا دھمکایا گیا، اور کچھ کو قتل اور دریا برد کر دیا گیا۔ جس کے بارے میں سپریم کورٹ کے ایک بنچ جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں پارلیمنٹیرین خواجہ برادران کے ضمانت کیس میں اپنا تاریخی فیصلہ سناتے وقت فرمایا کہ نیب ایک سیاسی انتقام گاہ بن چکا ہے۔ یہاں سیاستدانوں کی ہمدردیاں بدلنے کیلئے بازو مروڑے جاتے ہیں۔ نیب عقوبت خانے پوری دنیا میں مشہور ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے ملکی معیشت ڈوب چکی ہے لوگوں کو عرصہ دراز بنا مقدمہ بنا تفتیش اور بنا ثبوت بند رکھا جاتا ہے جو اب انسان کش کیمپس بن چکے ہیں۔ جو نازی ازم، گسٹاپوازم، اور فاشزم کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ یہاں ہٹلر کی خفیہ پولیس گسٹاپو مخالفین اور نقادوں کو اغواءکر لیتی ہے یا پھر ون پارٹی ون حکمران کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے۔ تاہم پاکستان میں جس پر 9 سالہ گورنر جنرل اور چالیس سالہ فوجی جنرل حکومتیں رہی ہیں جنہوں نے پرودا، ایبڈو اور آج کا نیبڈو کے سیاہ قانونیت کےساتھ پوری قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
جس سے سیاسی مخالفین کو گرفتار، اغواءاور قتل کیا جاتا ہے تاکہ حکمرانوں کےخلاف کوئی آواز بلند نہ ہو پائے۔ گزشتہ ہفتے پاکستان کے ایک مشہور صحافی مطیع اللہ جان کا اغواءاور بین الاقوامی دباﺅ میں رہائی ایک منہ بولتا ثبوت ہے کہ جن کو دن دیہاڑے اغواءکیا گیا جب اندرون اور بیرون ملک شور و غل مچا تو انہیں رات کی تاریکیوں میں چھوڑا گیا جو جان چکے تھے کہ اب یہ معاملہ بین الاقوامی میڈیا کا حصہ بن جائے گا لہٰذا انہیں کسی نامعلوم مقام پر پھینک دیا گیا۔ چنانچہ صحافی مطیع اللہ جان کے اغواءپر اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایکشن لیاجس میں حکومت کو وارننگ دی گئی تھی کہ انہیں ہر حالت میں برآمدگی کے ثبوت عدالت میں پیش کیا جائے جو گسٹاپور ازم کے خلاف پہلا قدم تھا جبکہ مطیع اللہ جان کی دوسرے دن عدالت عظمیٰ میں ایک توہین عدالت کیس میں پیشی تھی چنانچہ رہائی کے دوسرے دن مطیع اللہ جان سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس گلزار نے ان کےساتھ زیادتی پر ایکشن لینے کی بجائے اپنی توہین عدالت کیس کو ترجیح دی جبکہ صحافی کا اغواءکا جرم توہین عدالت کے کیس سے کہیں زیادہ سنگین ہے مگر افسوس کےساتھ کہنا پڑتا ہے کتا چوروں کےساتھ مل جائے تو گھر کا کیا ہوگا لیکن اب سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا ہے جس میں پوچھ گچھ کی جائےگی حالانکہ مطیع اللہ جان کا تعلق پاک فوج سے رہا ہے جو خود فوجی افسروں اور ان کے والد مرحوم فوجی کرنل رہ چکے ہیں مگر فوج جو آخر و بیشتر اپنے سابقہ فوجی جنرلوں کی حمایت میں باہر نکل آئی اور سابقہ کپتان مطیع اللہ جان اور کرنل انعام الرحمن کے اغواءپر کیوں خاموش رہے ہیں؟ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آج صحافیوں کا اغواء،قتل اور سیاستدانوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ کل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس شوکت صدیقی، جسٹس مقبول باقر، جسٹس وقار سیٹھ، جسٹس اطہر من اللہ یا کسی دوسرے جج کو بھی اغواءیا قتل کر دیا جائےگا جو گسٹاپور اہلکاروں کےخلاف عدالتی آواز بلند کر رہے ہیں۔ بہر کیف جسٹس مقبول باقر کا تاریخی فیصلے کے بعد نیب کی قانونی اور آئینی حیثیت ختم ہو چکی ہے جو ایک غیر قانونی اور غیر آئینی جنرل مشرف نومبر 1999ءکو پارلیمنٹ کی غیر موجودگی اور آئین کی معطلی کے بعد ایک بنا باپ کے اولاد جیسی ہے یا پھر صحافی مطیع اللہ جان کا اغواءموجودہ اعلیٰ عدالتوں کیلئے چیلنج بن چکا ہے کہ وہ کیا ایکشن لیتی ہیں جو اب عدالتی وقار پر سوالیہ نشان بن جائےگا کہ اگر عدالت عظمیٰ نے عقوبت خانوں کے ادارے نیب کو بند نہ کیا یا پھر صحافی کو اغواءکرنے والوں کو گرفتار نہ کیا تو پاکستانی عوام قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔ جو قانون اور آئین شکنوں کا خود مقابلہ کرنے پر حق بجانب ہوگئے ۔کوئی گسٹاپور اہلکار انہیں اغواءکرے، قتل کرے یا رسوا کرے ، وہ اس سے پہلے ہی ختم کر دیں۔ بہرحال سپریم کورٹ کئی مرتبہ اپنے فیصلوں میں کہہ چکا ہے کہ نیب کی گرفتاریاں اور جیلیں قانون اور آئین کی خلاف ورزیاں کر رہاہے جس سے پاکستان پوری دنیا میں بدنام ہو رہا ہے۔ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار خوف زدہ ہو کر ملک چھوڑ چکے ہیں۔ ان کا کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے ۔ملکی ایکسپورٹ زیرو، آمدن زیرو، وسائل زیرو، ہو چکے ہیں ایسے میں وہ ادارے جو نیب کے نام سے انتشار پھیلا رہے ہیں وہ ملک دشمن ہیں جو کسی سانحہ کے منتظر ہیں کہ پاکستانی قوم کو پھر کوئی 1971ءجیسا سانحہ سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ وہ لوگ جو دن رات یہ گیت گاتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان قائم رہنے کیلئے بنا جو قیامت تک قائم رہے گا انہیں یاد رکھنا ہوگا کہ پاکستان بنانے والی حقیقی قوم بنگالی پاکستان توڑ چکی ہے پھر کل کا ایک عرب آج درجنوں عرب ممالک میں تقسیم ہو چکا ہے۔ لہٰذا اس قسم کے بیانوں سے ملک نہیں بچتے ہیں جب تک پاکستان میں یکساں اور مساوی بلا تفریق اور بلا امتیاز انصاف نہیں ملے گا تو پاکستان کو خطرات لاحق رہیں گے۔ جس کا بعض طاقتوں کو ادراک بھی نہیں ہے جنہوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے جو پاکستان کے وسائل پر قابض ہیں آج پاکستانی عوام بھوک، ننگ، غربت و افلاس سے مر رہی ہے مگر میرو بنسری بجا رہا ہے۔ قصہ¿ مختصر اگر پاکستان میں سرکاری سرپرستی میں لا قانونیت جاری رہی تو ملک گرے لسٹ سے باہر نہیں نکل پائےگا۔ جس پر یورپ، برطانیہ، امریکہ، بہت پشیمان ہو گئے کہ پاکستان میں سرکاری اور غیر سرکاری دہشتگردی ختم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے جس میں نیبی اورغیبی طاقتوں کا دخل شامل ہے جس سے ملک دن بدن صومالیہ اور کانگو کی کیٹیگری میں شامل ہو چکا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here