مسئلہ کشمیر پر بھارت اور پاکستان دونوں نقشے اور ڈرامے بازیاں کرتے چلے آرہے ہیں جنہوں نے کشمیری قوم کی حق ارادی اور آزادی کو متنازعہ بنا دیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیری قوم کو فیصلے کرنا ہونگے کہ وہ کیا چاہتے ہیں، آزاد اور خود مختار ملک یا بھارت یا پاکستان کےساتھ الحاق ایسے موقع پر کشمیر کے اُلٹے سیدھے نقشے جاری کر کے کسی خفیہ ایجنڈے کو پورا کیا جا رہا ہے یہ جانتے ہوئے اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جو جموں، سرینگر، لداخ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتمل ہے جس پر بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر ہڑپ کر لیا اب پاکستان نے وہی حرکت کی ہے کہ نقشے بازی کے مطابق پورے کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دےدیا جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے حصے ہیں ،خاص طور پر آزاد کشمیر کا آئین، پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ اپنی ہے جس میں آزاد کشمیر کا اپنا صدر، وزیراعظم، اسپیکر، چیف جسٹس آف سپریم کورٹ اپنا ہے جس کا پاکستان کے اداروں سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے۔ چونکہ دونوں ملکوں کی اشرافیہ کا کشمیر ایک بہانہ ملا ہوا ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں ،بھارت نے قرارداد کی خلاف ورزی کر کے کشمیریوں کی آزادی سلب کر لی ہے جبکہ پاکستان نے اپنے نقشے بازی سے کشمیریوں کے حق ارادی کو نقصان پہنچایا ہے جس سے کشمیری جدوجہد کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ اب اپنی آزادی کی جنگ کی بجائے الحاق پاکستان کا جواب دینگے جس کو کہتے ہیں کہ منڈا جمیا نیں پتر بنیرے تھے۔کشمیر ابھی آزاد نہیں ہوا ہے نقشہ پہلے تیار کر لیا تاہم موجودہ حکمران ٹولہ جو نقشے بازیوں اور ڈرامے بازیوں کا کلا کار ہے جو اپنی نا اہلیوں اور ناکامیوں کو چھپانے کیلئے نت نئے ڈرامے کرتے نظر آتے ہیں کبھی بھینسوں، کٹوں، بکریوں، مرغیوں، ان©ڈوں سے ملک چلاتے ہیں کبھی گورنر اور وزیراعظم ہاﺅس کو اسکول بناتے نظر آتے ہیں کبھی صوبوں کی خود مختاری کو سلب کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں کبھی گانوں، بجانوں، ترانوں کے بہانوں کا سہارا لیتے ہیں آج کل انہوں نے کشمیر کے نام پر نقشے بازیوں کا سہارا لے لیا ہے جس سے کشمیر کی آزادی کو سخت نقصان پہنچا ہے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے جس پر بھارت کا قبضہ ہے جبکہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس پر بھارت اور پاکستان کسی قسم کا دعویٰ نہیں کرس کتے ہیں جس کا فیصلہ کشمیری عوام کو کرنا ہے پچھلے سال ستمبر میں عمران خان نے اپنی تقریر مقابلے میں کشمیری عوام پر بھارتی ظلم و ستم کی داستان سنائی جس کا بہت چرچا ہوا تھا جس کو انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے کُچل دیا کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے جو کہ اقوام متحدہ اور اقوام عالم کے مطابق غلط ہے۔ اب نہ جانے اگلے ماہ ستمبر میں عمران خان صاحب کیا فرمائینگے کہ کس طرح نقشے کا دفاع کرینگے یا پھر پچھلے سال کے امریکہ کےساتھ خفیہ معاہدے کے مطابق ادھر تم ادھر ہم پر عمل درآمد کرنے پر مجبور ہونگے جس کا اکثر و بیشتر ذکر ہوتا رہتا ہے کہ کشمیر کو مستقل طور پر بانٹ دیا جائے چونکہ موصوف جنرلوں کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار پر قابض ہوئے ہیں جنہوں نے اب سعودی عرب کے حکم پر بھارتی جاسوس کلبھوشن کو رہا کرنا ہے جس پر سعودی عرب نے حال ہی میں دھمکی دی ہے کہ کلبھوشن چھوڑو ورنہ پیسے دو، جو انہوں نے چھ ارب ڈالر جس میں تین ارب کیش کی شکل میں دیئے ہوئے ہیں جو پاکستان کو آئی ایم ایف کے لئے بطور گرانٹی دیئے تھے۔
قبل ازیں عمران خان سے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے سونے، چاندی، ہیرے جواہرات سے لیس ہوائی جہاز کو راستے سے واپس نیویارک بلوا لیا تھا جب انہوں نے اقوام متحدہ اور دوسرے مقامات پر ترکی اور ملیشیا کےساتھ مل کر الگ مسلم ٹی وی اور میڈیا کا کہا تھا جس پر سعودی عرب سخت ناراض ہوا تھا جس کے بعد پاکستانی شہزادے عمران خان کو اپنے کسی دیسی جہاز پر واپس پاکستان آنا پڑا تھا بہر کیف پاکستان اپنے دم کی بناءپر بھارت سے جنگیں لڑتا چلا آرہا ہے، ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو ایک دہشتگردوں کی فہرست میں ڈال رکھا ہے۔ پاکستان نہ جانے کتنے کشمیریوں کو حاصل کرنے کے مواقع ضائع کر چکا ہے جس کا پہلا ثبوت بانی پاکستان قائداعظم کی حکم عدولی میں ملتا ہے جب جنرل ڈگلسن گریسی اور جنرل ایوب خان نے کشمیر میں اپنی فوج کو داخل کرنے سے منع کر دیا تھا ،دوسرا جنرل اکبر خان اور دوسرے دو درجن بھر فوجی افسران پر راولپنڈی سازش کیس بنا دیا گیا جو کشمیر میں مہم جوئی کا منصوبہ بنا رہے تھے جس میں فیض احمد فیض کو بھی دھر لیا گیا تھا سوم قبائلی پٹھانوں کو آزاد کشمیر آزاد کرانے کا اور باقی ماندہ کشمیر میں داخل ہونے سے منع کر دیا گیا چہارم 1962ءمیں چین و بھارت کی جنگ میں چین نے پاکستان کو کشمیر میں داخل ہونے کا اشارہ دیا تو جنرل ایوب خاں بھاگ نکلے، پانچویں 1965ءمیں کشمیر کے علاقے چھمب جوڑیاں کے محاذ سے جنرل علی ملک کو ہٹا دیا گیا جو کشمیر میں داخل ہو رہا تھا چھٹا 1971ءمیں بھارت کا بنگال میں داخل ہونے پر مغربی پاکستان میں جنگ چھیڑنا اور کشمیر میں داخل ہونے کا موقع تھا جس پر پاکستانی فوج مغربی سرحد پر بھی پسپانظر اائی رہا امن معاہدوں میں شملہ معاہدہ اور لاہور اعلان کا جو حش رہو اوہ سب کے سامنے ہے۔
علاوہ ازیں کشمیر کے نام پر سیاچن اور کارگل میں جو کچھ ہوا وہ بھی قابل مذمت ہے اب یہ لوگ کیا کرینگے کہ جس کا ماضی کا منہ بولتا ثبوت سامنے ہے، جانتے ہوئے کہ جنگوں کے بغیر کشمیر حاصل کرنا ناممکن ہے یا پھر بھارت کےساتھ امن معاہدے کئے جائیں جس کے تحت کشمیر پر ہندو پنڈت کشمیری صدر، مسلمان وزیراعظم اور بدھا اسپیکر بنایا جائے جن کو دونوں ملک فی الحال آزاد اور خود مختار علاقہ قرار دیں تاکہ کشمیری عوام کی زندگی بحال ہو پائے ورنہ کشمیر اسرائیل کی طرح جلتا ہوا نظر آرہا ہے بہر حال پاکستان نے کشمیر کےساتھ وہی سلوک کیا ہے جو عرب ممالک فلسطین کےساتھ کر رہے ہیں جنہوں نے فلسطینیوں کو اکیلا چھوڑ دیا ہے اب پاکستان نے بھی اپنے نقشے بازیوں سے کشمیریوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے جس کے قاسموں کے سامنے کشمیری خواتین کی عزتیں لُٹتی رہیں ہیں وہ بھارتی پائلٹوں کو خیر سگالی کے طور پر رہا کرتے رہے چونکہ پاکستان اپنے تمام مواقع کھو بیٹھا ہے جس کو اب شرم مٹانے کیلئے یہ اُلٹے سیدھے نعروں، گانوں، ترانوں، بہانوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے جس کے اپنے قنشے بازیوں اور ڈرامے بازیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اب یہ نقشوں پر چھڑیا چلا چلا کر کشمیر کو آزاد کرائینگے جو عوام کو بیوقوف بنانے کے مترادف ہے۔
٭٭٭