ہارون الرشید
وزیرِ اعظم نے ٹھیک کہا کہ جنگ پوری قوم کو لڑنا ہوتی ہے،خود سیاستدان ہی اگرایک دوسرے کے درپے ہوں تو قوم کو کیا خاک متحد کریں گے؟ وزیرِ اعظم کی تقریر کے بعض نکات بہت اچھے تھے۔ ایران پر پابندیاں ختم کرنے کی اپیل ایک عظیم اخلاقی تقاضے کی تکمیل ہے۔سرزمینِ پہلوی بدترین صورتِ حال سے دوچار ہے۔ اوّل اوّل چھپانے اور نظر انداز کرنے کی روش۔ خو دپاکستان میں بھی وائرس زیادہ تر ایران ہی سے پھیلا۔تہران میں سب سے بڑا مسئلہ اب یہ ہے کہ درآمدات پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔ اس فہرست میں دوائیں بھی شامل ہیں۔ صدام حسین کے دور میں عراقی تجربے کے باوجود، جب علاج میسر نہ ہونے سے لاکھوں بچّے مر گئے، سرزمینِ شام، یمن اور لیبیا کے سانحوں کے باوجود، اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں تبدیلی کی کوشش کیوں نہ کی گئی؟ مغربی اقوام کے دل کیوں نہ پسیجے۔ پابندیوں کے جواز اور عدمِ جوازکی بحث الگ لیکن دوائیں روک لینے کا مطلب کیا ہے۔ انتقام کی آرزو کینہ پروری میں ڈھلتی ہے تو یہی ہوتاہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد یہ ہے کہ دل پتھر ہو جاتے ہیں بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت، پتھروں میں تو ایسے ہیں، جن سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں۔وبا عالمگیر ہے، تمام بنی نوع انسان کا مسئلہ ہے تو سعی و کاوش بھی مشترک ہونی چاہئے۔ اگر پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ تشخیص کی کٹ بنا سکتے ہیں تو لاہور، کراچی، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اورگجرات کے صنعت کاروں کو ان کی مدد کرنی چاہئیے۔ وسائل یکجا ہونے چاہئیں اور انسانی کوشش باہم مربوط۔ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ ساری دنیا میں کوئی بھی نہیں۔ غریب اقوام ہی نہیں، یورپ اور امریکہ بھی۔غریب آدمی تو ہمیشہ سے مرتا چلا آیا تھا اورہمیشہ سے حالات کے رحم و کرم پر تھا۔ اب امرا اور درمیانے طبقے بھی خوف اور اندیشوں میں غلطاں ہیں۔ آسودہ اور ہموار زندگیاں گزارنے والے اپنے باطن میں بید لرزاں کی طرح کانپ رہے ہیں۔ اٹلی اور فرانس میں سنجیدگی سے اس سوال پر بحث ہے کہ تمام کے تمام کارخانے قومیا لیے جائیں تاکہ خلقِ خدا بھوک اور بے روزگاری کی نذر نہ ہو۔ وزیرِ اعظم نے بظاہر بہت تسلی دی۔ مقابلہ کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا۔ لہجہ ان کا استوار تھا مگر یہ نہیں بتایا کہ سراغ لگانے والی کٹ، بڑے پیمانے پر ماسک کی تیاری اور معالجے کا کیا ہوگا۔ یہ ضرور بتایا کہ چین سمیت مختلف ممالک سے رابطے مسلسل ہیں۔ گرانی اور ذخیرہ اندوزی کی مذمت کی لیکن مہنگائی تو پہلے ہی بڑھ چکی۔ چالیس پچاس روپے کا ہاتھوں پہ لگایا جانے والا لوشن چار پانچ سو کا بک رہا ہے۔ صابن کی قیمتیں دو تین گنا بڑھ گئیں۔صرف انتباہ کی نہیں کارخانہ داروں کو ایک میز پر بٹھانے اور معاملہ طے کرنے کی ضرورت ہے، نگرانی کی ایک بھرپور نظام کی۔ آدمی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا۔ چین اور مغرب نے تو پھر بھی کچھ سیکھا ہے۔ ہمارا حال پتلا ہے۔ اللہ کے آخری رسول نے بنیادی اصول قطعی اور واضح الفاظ میں بیان کیا تھاوبا اگر پھیل جائے تو متاثرہ مقام سے لوگ باہر نہ نکلیں اور دوسرے لوگ ان جگہوں کا رخ نہ کریں۔ اقبال نے کہا تھا آزادی ءافکار ہے ابلیس کی ایجاد، چین میں مقیم پچیس ہزار طلبا کے پاکستانی والدین کا صدمہ قابلِ فہم تھا۔ ان کا درد محسوس کیا جا سکتاہے لیکن اگر ان سب کو آنے کی اجازت دے دی جاتی تو آج پاکستان کا حال ایران سے بھی بدتر ہوتا۔ ایران میں موجود زائرین کو بھی وہیں رکنا چاہئیے تھا۔ قرآنِ کریم یہ کہتا ہے کہ ذہن جب الجھ جائیں تو مشورہ اہلِ علم سے کیاجاتا ہے۔ اہلِ علم خاموش رہے اور بولے تو بعض نے بے ڈھب بات کی۔ رحمتہ العالمین کے بتائے ہوئے اصول کو نظر انداز کیا۔اس پر عمل کیا جاتا،سرحد پار پاکستانیوں کا وہیں علاج کیا جاتا تو ایک دوارب روپے سے زیادہ خرچ ہوتے۔یہ طوفان بھی نہ ٹوٹتا جو اب سامنے کھڑا ہے۔ دعائیں قرآنِ کریم سے اخذ کی جاتی ہیں۔ مشکلات میں جو پیغمبرانِ عظام نے پڑھیں یا جورسولِ اکرم نے تعلیم کیں۔ ”حصنِ حصین“ کے نام سے ان دعاﺅں کا مجموعہ ہر کہیں دستیاب۔یہ مجموعہ علامہ محمد الشافعی الجازری نے اس وقت مرتب کیا تھا، منگولوں نے جب دمشق کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ اس شب آپ کو خواب میں سرکارکی زیارت ہوئی اور آپ نے انہیں تشفی دی۔ اگلی صبح تاتاری واپس بھاگ نکلے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کیوں۔ اسی میں تجویز کردہ دعاوہ ہے، کل جس کا ذکر کیا تھا”لا حول ولا قﺅ الا بااللہ العلی العظیم۔“ اور مختصر سے درود کا:اللّھم صلی علی خیر خلقہ محمد و علی آل محمد و صحبہ اجمعین۔ جناب مفتی تقی عثمانی نے پہلے دن ایک معقول بات کی مگران کو دوسرے دن کا بیان کچھ زیادہ قابلِ فہم نہیں۔ ایک صاحب کا انہوں نے ذکر کیا، جن کا دعویٰ ہے کہ کثرت سے ختم المرسلین کی زیارت انہیں نصیب ہوتی ہے۔ پھر ان کے حوالے سے کچھ دعائیں تجویز کیں۔ آیت الکرسی ان میں شامل ہے۔ خود ہی اصول بیان کیا کہ خواب حجت نہیں ہوتا۔ خود ہی اس کی نفی کر دی۔ خواب کیا، کشف بھی حجت نہیں۔ اہلِ علم متفق ہیں کہ کشف میں شیطان کی مداخلت ممکن ہے۔ اس کا کام ہی بنی نوع انسان کو بھٹکانا ہے۔ پہلی خطا ہی پر آدمؑ اور حوا ؑکو بتا دیا گیا تھا کہ وہ انسان کا کھلا دشمن ہے۔ خواب کے سلسلے میں ایک اصول یہ بھی ہے کہ لازماً اس کی تعبیر وہ الفاظ نہیں ہوتے، بظاہر جو سمجھ میں آتے ہیں۔ مفتی صاحب کے منصب کا تقاضا یہ تھا کہ وہ تحمل سے کام لیتے۔ حصنِ حصین کی ہمیشہ سے پڑھی جانے والی دعاﺅں کی طرف متوجہ کرتے۔ اصحاب رسول اور اہلِ بیت سے لے کر آج تک علماء کا طرزِ عمل یہی ہے۔یوں تو اللہ سے پنجابی، سرائیکی، اردو، پشتو، چترالی یا کوہستانی زبان میں بھی بات کی جا سکتی ہے۔ فرمایا: کون ہے جو مضطرب کی دعا سنتاہے۔ کون ہے جو برائی کی گرھیں کھولتا ہے۔ دعا امید اور یقین کے ساتھ چاہئیے۔ظاہر ہے کہ ترجیح تو مسنون اور قرآنی دعاہی ہونی چاہئیے۔ ارشاداتِ گرامی میں سے ایک یہ ہے کہ بندے کے لیے اللہ ویسا ہی ہے، جیسا وہ اس کے بارے میں گمان کرے۔ رحمتِ تمام کا گمان کیوں نہ ہو۔ قرآنِ کریم اس باب میں واضح ہے۔ پروردگار کو یہی پسند ہے کہ بندے اس سے طلب کریں۔ ارشاد یہ ہے اللہ غنی انتم فقرا۔ اللہ غنی ہے اور تم محتاج۔ وزیرِ اعظم نے غریب قوموں کے قرض معاف کرنے کی جو اپیل کی،اغلباً وہ صدا بہ صحرا ہی رہے گی۔ خود اپنے لوگوں پر انہیں رحم نہیں آتا۔ بڑے پیمانے پر دنیا میں نوکریاں ختم ہو ر ہی ہیں۔ پتھر دل لوگ۔ حکومت کا کام بہرحال یہ ہے کہ و ہ پرہیز، تشخیص اور علاج کے لیے بہترین اور مربوط کاوش کرے۔ بارِ دگر عرض یہ ہے کہ سندھ او روفاقی حکومت میں الزام تراشی کا سلسلہ بندہونا چاہئیے۔وزیرِ اعظم نے ٹھیک کہا کہ عظیم ابتلاﺅں میں جنگ پوری قوم کو لڑنا ہوتی ہے۔خود سیاستدان ہی اگرایک دوسرے کے درپے ہوں تو قوم کو کیا خاک متحد کریں گے؟
٭٭٭