پاکستان وبائی اور سیاسی کرونا کی زد میں!!!

0
276
سردار محمد نصراللہ

سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن! پچھلے ہفتہ سخت طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے اپنا کالم درج نہ کرا سکا، ذرا سی کھانسی یا نزلہ ایسا، وہم ڈالتا ہے کہ سیدھا کرونا وائرس کی طرف لے جاتا ہے، اللہ کا شکر ہے کہ اس موذی مرض سے محفوظ ہوں لیکن کرونا نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ہر ملک اس کی زد میں ہے، چین سے شروع ہونےوالی اس وباءنے امیر و غریب کا لحاظ کئے بغیر سب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اس مرتبہ میرا دورہ پاکستان سیلف میڈ قرنطینیہ میں گزرا ہے بلکہ گزر رہا ہے، اور خاص طور پر گزشتہ گزرے ہوئے چند روز نے لاہور شہر کو سنسان کر دیا ہے، نہ کسی رشتہ دار کو میں دعوت دیتا ہوں اور نہ ہی کوئی مجھ کو، میں اپنے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر آسمان پر اُڑنے والی چیلوں کے جھرمٹ کو تکتا رہتا ہوں اور اس شہر لاہور میں گزرے ہوئے بچپن کو یاد کر کے کبھی خوش ہوتا ہوں اور کبھی افسردہ، اپنے گزرے ہوئے بچپن کی گولڈن یادیں اور چیئرنگ کراس کی سامراجی چال چلن کی شان و شوکت کبھی خود کلامی اور کبھی شہر میں بسے ہوئے نئے دولتیوں کو سناتا رہتا ہوں کہ چیئرنگ کراس سے لے کر مزنگ چونگی تک یہ علاقہ شیشے کی طرح چمکدار ہوا کرتا تھا اور اب یہ علاقہ پلوشن اور گند سے اٹا پڑا ہے، گنگا رام ہسپتال جو کہ کوئنز روڈ لینڈ مارک ہوا کرتا تھا اب شیخوپورہ کا سول ہسپتال لگتا ہے اب چیئرنگ کراس وہ چیئرنگ کراس نہیں رہا جہاں سردار نصر اللہ پیدا ہوا تھا بلکہ وہ لاہور، لاہور نہیں رہا جہاں پچیس سال تک اس کی گلی کوچوں میں کھیل کُود کر جوان ہوا اور پھراپنی غربت پر پردہ ڈالنے کیلئے سرزمین امریکہ کو اپنی بھرپور جوانی دے دی اور اب کرونا نے ایسے لگتا ہے جیسے اس نے نہ تو ہمیں امریکہ کا رہنے دینا ہے اور نہ ہی پاکستان کا۔
قارئین وطن! آج پاکستان بائیس بلکہ 23 کروڑ کی آبادی کا ملک ہے اور کرونا سے بچنے کیلئے تقریباً 2000/- وینٹی لیٹرز ہیں، اور ان میں بھی وقت ضرورت کتنے کام کرنے والے ہونگے، لگتا ہے کہ اس ملک کے حکمرانوں اور پالیسی میکرز نے ایک ایٹم بم بنایا ہے 72 سالوں میں اور اس کے علاوہ ڈیفنس ہاﺅسنگ سوسائٹی میں یا پورے ملک میں ہاﺅسنگ اسکیمیں، پلاٹس کے علاوہ اور کچھ نہیں بنایا، ایسے لگتا ہے کہ پچھلے بہتر سالوں میں کوٹھیوں اور پلاٹوں کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کیا۔ دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں جبکہ حکمرانوں کا ایک بڑا طبقہ پہاڑ جتنی دولت لوٹ کر برطانیہ میں پڑا مزے اُڑا رہا ہے اور چند سڑکوں وہ بھی جو ان کے گھر رائیونڈ جاتی ہیں کچھ بھی نہیں کیا کرونا سے تو پھر بھی اینٹی بائیوٹک کھا کر اور منرل واٹر پی کر اپنی جان بچائی جا سکتی ہے لیکن اگر شہر کو خدانخواستہ آگ لگ جائے تو جب تک فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آگ پر قابو پانے پہنچیں گی حاکم بدین شہر جل چکا ہوگا ۔اس کی وجہ ہمارے حکمرانوں نے کبھی اس طرف توجہ ہی نہیں دی کہ فائر انجن بھی قدرتی آفات پر قابو پانے کیلئے بڑی ضروری ہیں۔
قارئین وطن! شہر لاہور کے بسنے والے جانتے ہیں کوئنز روڈ جو کہ اب شارع فاطمہ جناح کہلاتا ہے لاہور کا دل ہے اس پر زمانہ سامراجی سنٹرل لاہور کے لئے فائر بریگیڈ کا اسٹیشن بنا ہوا ہے آج اس کی حالت زار دیکھ کر رونا آرہا تھا جیسے کسی یتیم کی لاش پڑی ہوئی ہے سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے کرونا سے زیادہ یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ خدانخواستہ اگر شہر میں آگ لگ جائے تو ہم کیا کرینگے چالیس سال پہلے فائربریگیڈ اسٹیشن کھنڈر بنا ہوا ہے کہاں تین آگ بجھانے والے تین ٹرک ہوا کرتے تھے اب وہاں پر صرف ایک ہی ہے اور وہ بھی خراب حالت میں کھڑا ہے یہ ہے وہ ترقی جس کا 35 سالہ حکمرانی کرنے والے دعوے دار ہیں، سوائے چند سڑکوں اور انڈر پاسز کے مجھے اپنے شہر لاہور میں کوئی ترقی نظر نہیں آئی، جس کا کریڈٹ شہباز شریف لیتا ہے رہا سوال اس عمرانی حکومت کا تو میں یہ سوچ سوچ کر پاگل ہوا جاتا ہوں کہ اس کے بھی وہی چال چلن ہیں کہ شو بازیاں زیادہ ہیں اور عملی اقدامات کم ہیں، مجھے تو اقتدار کی راہداری میں چلتا پھرتا ہر شخص کرونا سے بڑا وائرس نظر آتا ہے جن کے پاس کوئی عوام کو ریلیف دینے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے سوائے زبانی جمع خرچ کے۔ مجھے امان اللہ خان صاحب جو لاہور میں جرنسلٹوں کے حلقہ میں اچھا شو ر تصور کئے جاتے ہیں نئے لوگوں کو بتاتا چلوں کہ اچھا شوکر اپنے زمانے میں ایک بہت بڑا بدمعاش ہوا کرتا تھا اس سے ہر کوئی ڈرتا تھا آج ہمارے امان اللہ خاں صاحب سے سب ہی ڈرتے ہیں لیکن ان کی بری مہربانی ہے کہ مجھ غریب پر پردیسی سمجھ کر شفقت فرماتے ہیں۔ شیزادن ریسٹورنٹ جو فورٹس اسٹیڈیم میں ہے ساتھ لے گئے اور وہاں کچھ دوستوں سے ملوایا جن میں جرنلسٹ بھی تھے اور ادارے کے لوگ بھی شامل تھے۔ ان میں سے ایک صاحب نے عمران خان کی حکومت کی اور اس کو لانے والوں کی ایسی ایسی باتیں بتائیں کہ میں کانپ گیا ان صاحب کی باتیں سُن کر مجھے ووہان کا کرونا وائرس تو بھول گیا اور مجھے سیاسی کرونا وائرس ہو گیا، یقین جانئے مجھے سیاست سے سخت نفرت ہو گئی ہے لیکن جب میں ان صاحب کو ٹوکتا اور نوازشریف اینڈ کمپنی کی بدمعاشیوں کے بارے میں بات کرتا تو ادارے سے تعلق رکھنے والے صاحب یقین دلاتے کہ وہ اب قصہ پارینہ ہو چکا ہے اور آپ فکر مت کریں کہ مہرہ چلانے والے آرام سے نہیں بیٹھے وہ ان صاحب یعنی عمران خان کے بارے میں بھی ان کو چلتا کرنے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں۔
قارئین وطن! ان سب دوستوں کی باتیں سننے کے بعد مین دل ہی دل میں انقلاب انقلاب کرتا رہا اور اللہ سے دعا کرتا رہا کہ میرے مولا کب اور کیسے انقلاب آئےگا۔ جو اس بھٹی کو سب سے پہلے برباد کرے گا۔ جو ہم پر نوازشریف، زرداری اور عمران خان جیسے خام لیڈر تیار کر کر کے ہم پر مسلط کرتے رہتے ہیں۔ یا اللہ ہمیں وبائی اور اس کرونا لیڈر شپ سے نجات دلا دے۔ آمین!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here