نیویارک(پاکستان نیوز) آپریشن بلیو سٹار نے کئی سکھ آزادی پسند تحریکوں کو جنم دیا، پنجاب میں جاری تحریک میں 1981سے اب تک 11798عام شہری اور8125مسلح سکھ علیحدگی پسند جان بحق ہوئے۔ خالصتان تحریک سے وابستہ تنظیموں نے کشمیر میں ہونے والی ہندوستانی زیادتیوں کا ذکر بھی کرنا شروع کر دیا ہے۔ جون 1984 میں ہندوستانی حکومت کی جانب سے سکھ میجر جنرل کلدیپ سنگھ برار کی سربراہی میں خونی آپریشن بلیو اسٹار کے دوران بے پناہ طاقت کے استعمال نے وقتی طور پر 70 اور 80 کی دہائی میں پورے زور و شور کے ساتھ جاری علیحدہ ملک کی سکھ تحریک کو کچل دیا تھا۔ جس بے رحمی سے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے اور ان کے ساتھیوں کو طاقت کے بے پناہ استعمال کے ذریعے ہلاک کیا گیا، اور جس طرح سے گولڈن ٹیمپل پر آپریشن کے لیے سکھوں کے مذہبی تہوار کے دنوں کا انتخاب کیا گیا ، وہ سکھ نیشنلزم اور خالصتان تحریک کے احیا کے ایسے بیج بو گیا، جنہوں نے اب پھوٹنا شروع کر دیا ہے۔ ڈینش نیوز پورٹل القمر آن لائن کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں آزادی کے بعد کانگریس کی سیکیولر حکومت قائم ہوئی لیکن اس سیکیولر حکومت نے جس قسم کی مذہبی پالیسیاں بنانا شروع کیں ان سے مسلمانوں کی طرح سکھوں کو بھی بہت شکایات پیدا ہوئیں۔ جب سکھوں کی شکایات اور مطالبات میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا اور کئی دہائیوں تک ہندوستان پر حکمران رہنے والی کانگریس ان مطالبات پر سکھوں کو مطمئن کرنے میں ناکام ہوتی چلی گئی، تو ہندوستانی پنجاب میں کئی ایک سیاسی جماعتیں اور علیحدگی کی تحریکیں منظم اور فعال ہونا شروع ہو گئیں مزاحمت کے ذریعے سکھوں کے علیحدہ ملک خالصتان کا مطالبہ کرنے لگیں۔ 70 اور 80 کی دہائی میں یہ تحریکیں بہت زور پکڑ گئیں اور پھر خالصتان تحریک کی سربراہی نئی نسل کے نوجوان جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کی مقبولیت کے باعث ان کے ہاتھوں میں آنا شروع ہو گئی۔ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے نے جنگجو تنظیم سازی کے ذریعے بزورِ طاقت خالصتان کے علیحدہ ملک بنانے کی جدوجہد شروع کر دی جو آپریشن بلیو اسٹار میں ان کی اپنے سینکڑوں مسلح ساتھیوں کی ہلاکت کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچی۔ ان واقعات نے ہندوستانی ریاست اور سکھوں کے درمیان نہ ختم ہونے والی نفرت پیدا کر دی۔ ان واقعات کے بعد سے سکھ مسلح جدوجہد اور ٹارگٹڈ کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ خالصتان کی سکھ تنظیموں نے دوسرے ملکوں میں بسنے والے سکھوں کو منظم کرنا شروع کیا اور آج ایک دفعہ پھر خالصتان تحریک مضبوط ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس وقت ببر خالصہ، انٹرنیشنل سکھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن، خالصتان کمانڈو فورس، آل انڈیا سکھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن، بھنڈرانوالے ٹائیگر فورس آف خالصتان، خالصتان زندہ باد فورس، خالصتان لبریشن فورس، خالصتان لبریشن آرمی، دشمیش رجمنٹ، اور شہید خالصہ فورس نامی مختلف تنظیمیں خالصتان کی آزادی کے لیے سرگرم ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب ایک نیا رجحان جنم لے رہا ہے اور خالصتان کی تحریکوں میں مذہب کے ساتھ ساتھ بتدریج قوم پرستی کا رنگ بھی سامنے آنے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خالصتان تحریک سے وابستہ تنظیموں نے کشمیر میں ہونے والی ہندوستانی زیادتیوں کا ذکر بھی کرنا شروع کر دیا ہے۔ القمرآن لائن کے مطابق آپریشن بلیو سٹار کی منصوبہ بندی میں بھارت کو برطانیہ کی مدد بھی حاصل تھی۔ 2014میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے کابینہ سکریٹری کو اس دعوے سے منسلک حقیقت پیش کرنے کو کہا ، جس میں سال 1984 میں اندرا گاندھی کی آپریشن بلو سٹار کی منصوبہ بندی میں مارگیٹ تھیچر کی حکومت کی طرف سے مدد کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ لیبر ایم پی ٹام واٹسن اور لارڈ اندرجیت سنگھ نے پرائیویسی کی فہرست سے خارج کردہ دستاویزات کی بنیاد پر اس کی وضاحت کی کوشش کی۔ان دستاویزات میں ایسے اشارے ملے تھے کہ برطانیہ کی خصوصی فضائی سروس ( ایسییس ) کے حکام کو گولڈن ٹیمپل پر دھاوا بول کر اندر چھپے دہشت گردوں کو نکالنے کی منصوبہ بندی میں بھارت کی مدد کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ ان دستاویزات کے مطابق امرتسر میں اس واقعہ سے قریب چار ماہ پہلے یعنی 23 فروری 1984 انتہائی خفیہ خط لکھا گیا جس میں بھارتی انتظامیہ نے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل سے سکھ شدت پسندوں کو نکالنے کی منصوبہ بندی پر برطانیہ سے مشورہ مانگا تھا اور برطانوی وزیر خارجہ نے بھارت کے اس درخواست پر مثبت رد عمل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وزیر اعظم کے معاہدے کے مطابق ایسییس کے ایک افسر نے بھارت کے سفر کی منصوبہ بندی کا خاکہ تیار کیا جسے محترمہ گاندھی نے منظوری دے دی۔ برطانیہ میں نیٹ ورک آف سکھ ارگیناجیشس کے ڈائریکٹر لارڈ سنگھ کے مطابق یہ دستاویز اس بات کا ثبوت ہیں کہ سکھوں پر ہمیشہ شک کیا گیا گولڈن ٹیمپل پر دھاوے کی منصوبہ مہینے بھر پہلے بنائی گئی تھی ، یہاں تک کہ حکومت ہند ہفتے بھر پہلے تک دعوی کرتی رہی کہ ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ آپریشن بلیو سٹار کے موقع پر جنوبی ایشیا میں قائم ایک ادارے ساوتھ ایشین وائر نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارتی پنجاب میں جاری تحریک میں سال 1981سے 6جون 2021 تک 11798عام شہری اور8125مسلح سکھ علیحدگی پسند جان بحق ہوئے۔ اسی عرصے میں 1764فورسز کے اہلکار بھی کام آئے۔ 1984میں359عام شہری، 20فورسز اہلکاراور77علیحدگی پسند ،1988میں 1949عام شہری، 110فورسز اہلکار، 373علیحدگی پسند، 1989میں1168عام شہری،201فورسز اہلکار، 703علیحدگی پسند، 1990میں 2467شہری، 476اہلکار، 1320سکھ مسلح علیحدگی پسند،1991میں2591عام شہری، 497سیکورٹی اہلکار،2177علیحدگی پسند، 1992میں 1518عام شہری 252سیکورٹی اہلکار، 2113علیحدگی پسند، 1993 میں 48عام شہری25سیکورٹی اہلکار،798علیحدگی پسند اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔جبکہ 1994سے 6جون 2021تک 228عام شہری اور1011مسلح علیحدگی پسند جان بحق ہوئے۔