تیئس جنوری کو چائنا نے لاک ڈاو¿ن کیا صرف دو ماہ میں کرونا جیسی عفریت پر قابو پا لیا جی ہاں تیئس مارچ کو چائنا کے تمام شہروں میں زندگی نارمل ہو گئی کرونا کا ایک بھی نیا کیس نہیں ملا انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کہ “وبا کی صورت میں نہ کوئی آئے اور نہ کوئی وہاں سے جائے” پر عمل پیرا ہو کراور آئسولیشن میں مریضوں کا علاج کر کے صفائی جو کہ ہمارے دین حنیفہ میں نصف ایمان درجہ رکھتی ہے کا خاص خیال رکھ کر کے مرنے والوں کو پراپر طریقے سے ٹھکانے لگا کر کے میڈیکل اور پیرا میڈیکل سٹاف سے گائیڈ لائن لے کر کے ملٹری انتظامیہ کی خدمات حاصل کر کے جو کہ مکمل نظم نسق میں طاق مانی جاتی ہے کی مدد سے قورینٹین نافذ کیا گیا ۔تھرمل سکریننگ سے لے کر بلڈ ٹیسٹ تک کے لیے لگے رہے وسائل کی کمی تھی نہ ہی ہمت کی تو دنیا نے دیکھا کہ سب سے زیادہ تعداد میں کرونا مثبت آبادی کو زیرو تک لے آیا۔ آرمی اور عوام نے ملکر ڈاکٹرز اور اس کے عملے کو خراج تحسین سیلوٹ اور دیدہ و دل فرش راہ کر کے پیش کیا ۔اٹھارہ بڑے شہروں میں پچاس ہزار بڑی سکرینوں پر ڈاکٹرز کی تصویریں دن رات چلتی رہیں ،ان کو ہیرو قرار دیا گیا اور مرنے والوں کو شہید ،دوسرے ممالک کو بھی یہ ہیرو ڈاکٹرز بھیجے جائیں گے، ان کے پایہ استقلال میں ہلکی سی بھی جنبش تک نہ آئی ۔ایران ،اٹلی جہاں پر انسانیت سسکیاں لے رہی ہے امدادی سامان ،آلات کے ساتھ ہیرو ڈاکٹرز بھیج کر عزم و ہمت اور قربانی کی بے مثال تاریخ رقم کر دی ۔پاکستان میں دوسو ڈاکٹرز جس میں ایپیڈیمیولوجسٹ بھی شامل ہیں ،اپنے پاکستانی بھائیوں کی مدد کے لیے چائنا سے آ چکے ہیں ،ان کے تجربہ سے مستفید ہونے کے لیے ان کے آتے ہی پنجاب اور سندھ میں لاک ڈاو¿ن کر دیا گیا ہے۔ اللہ نہ کرے پاکستان میں یہ وبا اس شدت سے پھیلے کہ جیسے ایران اور اٹلی میں پھیلی ہے ۔ایران میں میڈیکل کی سہولیات وافر ہیں لیکن وہ قورنٹین نہ کر سکے ،اسی بنا پر پاکستان نے بھی سفر کیا چائنا نے اپنے کورونا کے مریض پاکستان بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایران نے تافتان بارڈر تک پہنچا دیئے اور پاکستانی حکومت نے بغیر سکریننگ کے لے بھی لیے، اب ان مریضوں کو قابو کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ دیر آید درست آید لیکن اب لاک ڈاو¿ن کر دیا گیا ہے، پاکستان میں پندرہ سے پچیس سو تک وینٹیلیٹرز ہیں جو کہ اتنی بڑی وبا میں انتہائی ناکافی ہوں گے۔ ٹرمینل سٹیج میں ان وینٹیلیٹرز کی اشد ضرورت ہوتی ہے ،ان سے مصنوعی سانس لینے سے انسانی جان بچائی جاسکتی ہے، ایٹم بم بنانے والے پاکستان میں وینٹیلیٹرز بنانے کے لیے لوکل مینوفیکچر کا سیٹ اپ لانا پڑے گا۔ چائنا سے فوری طور پر امپورٹ کئے جاسکتے ہیں ، ہوٹلز کو ریسٹ ہاوسز کو آئیسولیشن سنٹرز میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ،پاکستان میں تمام سہولیات سے مزین پچیس لاکھ مساجد ہیں ،ایک کروڑ سے زیادہ مساجد سے اٹیچڈ عملہ ہے جس میں سے والنٹیئرز نکالے جا سکتے ہیں کہ ان میں لوگوں کی بھلائی کا عنصر بدرجہ ا±تم موجود ہوتا ہے جس امت میں کچالہسن اور پیاز کھا کر مسجد جانے کی ممانت ہو وہاں وبائی امراض لے کر جانا کہاں کی دانشمندی ہو گی ۔مساجد کو عبادت کے لیے بند کر کے وہاں خدمت کے مراکز کھولے جاسکتے ہیں اگر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی ان حالات میں عبادت کے لیے بند ہو سکتی ہے تو پاکستان بھر کی مساجد کیوں نہیں ۔آرمی تو پہلے ہی ہمہ وقت تیار ہے ،ہر طرح کی مصیبت اور آفت کو کنٹرول کرنے کے لیے اس وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے ہمیں ایک مکمل آپریشن روم بنانا ہوگا جس میں تمام اختیارات اور انفورمیشن تک رسائی حاصل ہو، تمام صوبوں کے چیف منسٹرز انٹرلنک ہوں ایک کمبائنڈ ایفورٹ کے تحت اس وبا کو قابو کیا جانا ضروری ہے، شفٹوں میں ٹونٹی فور سیون کام کیا جائے ، ایک دوسرے کو بریف کیا جائے۔ ڈیٹا اکٹھا کیا جائے اور اس کے مطابق اس پر ایکشن لیا جائے اور سب کو آن بورڈ رکھا جائے، کسی بھی قسم کی سیاست نہ کی جائے، میڈیا بھی اپنا رول ادا کرے اگر ہم سب نے مل جل کر اس وبائی عفریت پر قابو پا لیا تو یقین کریں ہم نے زندگی کا مقصد پا لیا کیونکہ فرمان خداوندی ہے” جس نے ایک انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی“
٭٭٭